آج سے ۲۰ سال قبل جب فلسطین کو یہود کے قبضہ میں جانے سے بچانے کے لیے فیصلہ کن لڑائی لڑی جارہی تھی تو عرب محاذ پر دادِ شجاعت دینے والوں میں سرِفہرست اخوان نوجوان تھے۔ شوقِ شہادت سے لبریز دلوں کے ساتھ وہ ہر قربانی اور ہر لڑائی کے لیے سب سے پہلے آگے بڑھتے تھے۔ نتائج سے بے پروا ہو کر انہوں نے اس معرکۂ حق و باطل میں اپنے مقدس اور قیمتی خون سے اس جہاد کا درخشاں ترین باب رقم کیا۔ ماضی قریب کی تاریخ کے اہم باب سے اردو دان طبقہ کو حقیقی معنوں میں آگاہ کرنے کے لیے ادارہ ’’چراغ راہ‘‘ استاد کامل شریف کی کتاب ’’الاخوان المسلمون فی حرب فلسطین‘‘ کی تلخیص پہلی بار پیش کر رہا ہے۔ یہ جائزہ ہم کو یہ بھی بتاتا ہے کہ کس طرح اپنوں کی بے وفائی جنگ میں ہار اور شکست کا سبب بنتی ہے اور یہ بھی اگر عالمِ عرب کو کوئی گروہ عزت و سربلندی سے ہمکنار کر سکتا ہے تو وہ اخوان المسلمون ہی کا گروہ ہے۔
جون ۱۹۶۷ء کے افسوسناک سانحہ کے تذکرہ کے وقت بے اختیار وہ نوجوان یاد آتے ہیں جو فلسطین کی آبرو کے محافظ تھے اور جن کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ یہ تھا کہ یہود‘ انگریز اور امریکا سب مل کر بھی ۱۹۴۸ء میں بیت المقدس پر قبضہ نہ کر سکے۔ وہ یہودی استعمار کے آگے آہنی دیوار بن گئے۔ لیکن افسوس کہ ۱۹۶۷ء تک وہ آہنی دیوار خود اپنوں کے ہاتھوں توڑی جاچکی تھی اور یہود نے تین دن کے اندر نہ صرف قبلۂ اول کو ہمارے دیکھتے دیکھتے چھین لیا بلکہ مصر‘ شام اور ایران کے ہزاروں مربع میل کے رقبہ پر قابض ہو گئے۔ اخوان کے قاتلوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کر سکتی۔
جس کو پامال کیا بادِ حوادث تو نے
یہی غنچہ کبھی کھلتا تو گلستاں ہوتا
ہم آج ان شہدا کی یاد کو ایک بار پھر تازہ کرتے ہیں اور دنیاے اسلام کو اس امر پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ اگر ۱۹۶۷ء میں اخوان ہوتے تو کیا ہوتا؟ اور آج بھی ان حالات کا اگر کوئی مقابلہ کر سکتا ہے تو وہ کون ہو سکتا ہے۔ (ادارہ)
۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ میں تقسیمِ فلسطین کی تجویز منظور ہونے کے بعد سے یہ مقدس سرزمین قتال و خونریزی کا میدان بنی ہوئی ہے۔ یہودی تقسیم سے کافی عرصہ پہلے ہی سے پوشیدہ طور پر جنگی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ برطانیہ کی زیرِ سرپرستی باقاعدہ تربیت فوجیں تیار تھیں اور سامانِ جنگ جمع ہو رہا تھا۔ عربوں کی حالت بالکل مختلف تھی۔ اس وقت جبکہ پوری دنیا کے یہودی اپنے فلسطینی بھائیوں کو مثبت مدد کر رہے تھے۔ فلسطین کے عرب اپنی جگہ بالکل تنہا تھے۔ انہوں نے بطور خود نوجوانوں کو جنگ کے لیے منظم کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن انگریزوں کی طرف سے اسلحہ رکھنے اور جنگی تیاریاں کرنے پر جو پابندیاں عائد تھیں‘ انہوں نے عربوں کو منظم ہونے کا موقع نہیں دیا۔ معرکہ شروع ہو گیا اور عرب فوج تنظیم اور قیادت سے محروم رہی۔ اپنی نازک حالت کا احساس ہونے پر فلسطینیوں نے مختلف علاقوں میں الگ الگ کمانیں قائم کیں۔ جن کے قائدین ’’عبدالقادر الحسینی شہید‘‘ اور ’’حسن سلامۃ‘‘ شہید جیسے لوگ تھے۔ ان دونوں نے یہودی فوج کے بالمقابل جو کارنامے سرانجام دیے‘ ان سے انگریزوں اور یہودیوں کو یہ خیال ہونے لگا تھا کہ عربوں کو کہیں باہر سے مدد مل رہی ہے۔ کیونکہ ایک غیرمنظم فوج اس طرح جنگ نہیں لڑ سکتی۔
اخوان اور فلسطین
مسلمانوں کا قبلۂ اول اور بلادِ عربیہ کا مرکز فلسطین شروع ہی سے اخوان کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ فلسطین کے بارے میں برطانیہ کی سیاسی چال آشکارا ہونے کے بعد سے اخوان کے لگاتار ہونے والے جلسوں میں اس مسئلہ پر غور ہو رہا تھا۔ انہوں نے سب سے اہم کام یہ کیا کہ مسلمان قوموں اور حکومتوں کو اس خطرے سے آگاہ کیا اور اس کو صرف اہلِ فلسطین کے بجائے پورے عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کا مسئلہ بنا دیا۔
فلسطین میں مجاہدین کی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو اخوان نے مال اور اسلحہ سے ان کی مدد کی۔ ۱۹۳۶ء کے معرکوں میں اخوان نے براہِ راست حصہ لیا‘ خصوصاً شمالی علاقوں میں مجاہد عظیم شیخ عزالدین القسام کے ساتھ مل کر انہوں نے بہت کام کیا۔
دوسری جنگِ عظیم ختم ہونے کے بعد اخوان کے وفود عربوں میں لڑائی کی ضرورت کا احساس پیدا کرنے کے لیے جگہ جگہ گئے۔ ان کے ایک گروہ نے فلسطینی جوانوں کو خفیہ طور پر ٹریننگ دینے کا کام شروع کیا اور دھیرے دھیرے اخوان کی رہائش گاہوں نے قیادت اور جنگی تربیت کے مراکز کی حیثیت حاصل کر لی۔ فلسطینی عوام آج بھی سعید رمضان‘ عبدالرحمن الساعاتی‘ عبدالمعز عبدالستار اور عبدالعزیز احمد کے دعوتی اور تربیتی کارناموں پر فخر کرتے ہیں۔
اخوان کی کارروائیوں سے یہود کو اپنے مقاصد کے لیے خطرے کا احساس ہوا اور انہوں نے اس خطرے کو دور کرنے کے لیے ایک چال یہ چلی کہ یورپ اور امریکا کے اخباروں میں اخوان المسلمین کے متعلق لمبے لمبے مقالات لکھے جن میں اخوان پر طرح طرح کے الزام لگائے جاتے اور ان کو ریاستہائے متحدہ امریکا کے لیے خطرناک قرار دیا جاتا۔ اس سلسلہ میں ایک یہودی لڑکی ’’رُتھ کارف‘‘ کا مضمون بہت اہم ہے جو ’’سنڈے مرر‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس کے کچھ حصے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں:
’’جماعت اخوان المسلمین‘‘ ہر مسلمان سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مجلسِ اقوامِ متحدہ سے تعاون نہ کرے۔
اب وقت آگیا ہے کہ امریکی قوم یہ جان لے کہ یہ کس قسم کی تحریک ہے اور اس پُرکشش نام ’’اخوان المسلمین‘‘ کے پیچھے کون لوگ کام کر رہے ہیں۔
فلسطین میں اخوان المسلمین کے سخت ترین دشمن یہودی ہیں اور وہ اخوان کی ظلم و زیادتیوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔۔۔ وہ امریکی سفارتخانوں پر بھی دھاوے بولتے رہتے ہیں اور علانیہ اقوامِ متحدہ سے علیحدہ ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں‘‘۔
مقالہ نگار نے اخوان کی تحریک کو اسلامی فاشزم کا نام دیا اور اسے یورپ کے لیے اسی طرح خطرناک قرار دیا جس طرح ایامِ گذشتہ میں نازی تحریک ثابت ہوئی تھی۔
اس قسم کی بے شمار مخالفانہ کوششوں کے ہجوم میں اخوان نے اپنا کام جاری رکھا۔ ان کے وفود جگہ جگہ گئے‘ اسلحہ جمع کیا جاتا رہا‘ لوگوں کو جنگی تربیت دی گئی اور بالآخر فوجی یونٹیں قائم ہو گئیں۔ اس سلسلہ میں ’’الصاغ محمود لبیب‘‘ نے بہت کام کیا حتیٰ کہ حکومت برطانیہ نے ان کو جلاوطن کر دیا۔
مصر میں بھی اخوان برابر کام کر رہے تھے۔ مصری عوام کی خواہش تھی کہ فلسطین کو صیہونی خطرے سے بچانے کے لیے مصر عملی قدم اٹھائے۔ اخوان نے ان کے ساتھ مل کر باقاعدہ مطالبہ کی صورت میں یہ آواز حکام تک پہنچائی۔ اس سلسلے میں اخوان کی قیادت میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے اور یہ دعویٰ غلط نہیں ہو گا کہ مصری عوام کے دلوں میں فلسطین کی مدد کا جذبہ اخوان ہی کا پیدا کردہ تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے استعماری کوششوں کے نتیجہ میں عوام کے اندر سے جہاد کی روح بالکل نکل چکی تھی۔ جہاد کی ضرورت اور جہاد میں مشغول قوم کی تائید و مدد کا جذبہ مصری جوانوں اور اکثر خطیبوں اور مبلغوں میں پیدا کرنے کا سہرا اخوان ہی کے سر پر ہے۔ اصل جنگ شروع ہونے سے پہلے اخوان نے سب سے بڑا کارنامہ یہی انجام دیا۔ وہ اس فرمانِ خداوندی کی تعمیل میں مصروف تھے کہ یاایھا النبی حرض المومنین علی القتال۔
اخوان کی راہ کی رکاوٹیں
اخوان کے نظریات و عمل اور نوجوانوں کا اس طرف مائل ہونا ایسا خطرہ تھا جسے انگریز نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔ جنگ شروع ہو گئی تو اخوان کی کارگزاریوں کو دیکھتے ہوئے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ ان کو جنگ سے دور رکھا جائے‘ ان کے کئی لیڈروں کو مخصوص مقامات پر جانے سے روک دیا گیا۔ انگریزوں کی مسلح قوت ان کے مقابلہ پر آگئی۔ ان کے مراکز پر چھاپے مارے گئے۔ سامان اور اسلحہ کے ذخیرے ضبط کر لیے گئے اور مجاہدین کو پکڑ پکڑ کر پوچھ گچھ کے لیے لے جایا گیا۔ بعد میں انگریز ان قیدیوں کو یہودیوں کے سپرد کر دیتے جو اپنی عدالتوں میں ان پر مقدمہ چلاتے ’’یافا‘‘ میں اخوان کے مرکز کے ساتھ یہی معاملہ ہوا۔ دشمن اخوان ہی کو جنگ کا محرک ٹھہراتے تھے۔ اس لیے ان کے ساتھ عام قیدیوں سے کہیں گیا گزرا سلوک کیا جاتا تھا۔ اخوان کے معاملہ میں انگریزوں کا موقف یہ تھا کہ وہ فلسطین کے امن کے لیے خطرناک ہیں۔ حالانکہ اسی زمانہ میں یورپ اور امریکا سے ہزاروں تربیت یافتہ یہودیوں کو فلسطین میں لایا جارہا تھا اور انگریز افسر خود یہودیوں کو فوجی تربیت دے رہے تھے۔
مئی ۱۹۴۸ء میں انگریزوں کا دورِ انتداب ختم ہو گیا۔ اخوان خوش تھے کہ اب وہ آزادی کے ساتھ فلسطینی بھائیوں کی مدد کر سکیں گے۔ لیکن ان کی یہ امید غلط ثابت ہوئی۔ انگریز اگرچہ میدان سے ہٹ گئے تھے لیکن ان کی سیاست جاری تھی۔ اخوان نے حکومت سے صحراے نقب میں داخل ہونے کی اجازت مانگی لیکن حکومت یہ اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ بہت اصرار کے بعد ان کو مینا میں داخلہ کی اجازت مل گئی‘ جہاں سے وہ دھیرے دھیرے خفیہ طور پر فلسطین پہنچنے لگے۔ قلتِ تعداد اور اسلحہ کی کمی کے باوجود انہوں نے یہودی نوآبادیات پر بڑے کامیاب حملے کیے۔ دو مہینے گزر گئے‘ حکومت کو ان کی سرگرمیوں کی اطلاعات ملیں تو واپس آنے کا حکم مل گیا۔ اخوان نے اس حکم کی پروا نہ کی تو حکومت کی طرف سے طرح طرح کی سختیاں اور پابندیاں عائد ہو گئیں۔ سامانِ خورد و نوش یا اسلحہ میں سے کسی قسم کی چیزیں ان کو نہیں پہنچ رہی تھیں۔ وہ بہرحال ان صحابہ کرام کے اسوہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا فرض انجام دیتے گئے جو پیٹ پر پتھر باندھ کر جہاد میں حصہ لیتے تھے۔
اخوان جنگ ختم ہونے تک لڑتے رہے اور جنگ ختم ہونے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ ان کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ حکومتوں کے ضعف اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے یہودیوں کے قدم عرب سرزمین پر اور مضبوطی سے جم گئے۔ اخوان کا خیال تھا کہ باقاعدہ جنگ ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ گوریلا جنگ جاری رکھیں گے۔ لیکن بعد کے حالات نے ان کا یہ منصوبہ بھی پورا نہ ہونے دیا۔ حسن البنا کی شہادت کی خبر ملنے کے بعد ان کے ذہن بیکار ہو ہی چکے تھے کہ خود ان کے لیے جیلوں اور طرح طرح کی سزائوں کے دروازے کھل گئے۔ صحراے نقب‘ صورباھر بیت لحم اور الخلیل کے معرکوں میں شجاعت کے جوہر دکھانے والے مجاہدین اب قید خانوں میں بند تھے۔ یہ دنیوی جزا تھی ان کے جہاد کی اور انہیں اس کی پروا بھی نہیں تھی۔ ان کی نظریں تو اس جزا پر لگی ہوئی تھیں جس کا وعدہ رب العالمین نے ان سے کیا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’چراغِ راہ‘‘۔ کراچی۔ جون ۱۹۶۸ء)
Leave a Reply