
جب کبھی دنیا کی طاقتور قوتیں اپنی ناکامی کو قبول کرتی ہیں تو ایسی صورتحال میں انہیں اپنی غلطی کا خمیازہ تا دیر بھگتنا پڑتا ہے۔ امریکا کا افغانستان میں دو دہائی تک قیام کے بعد اب انخلا کا فیصلہ بھی اسی طرح خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ افغانستان کے عوام کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اب امریکا اپنی ناکامی اور واپسی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دراصل، وہ اپنے اصل حریف چین پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔امریکا کے لیے اس ذلت آمیز شکست کے دُوررس اثرات سے باہر نکلنا آسان نہیں ہوگا۔
امریکا کے انخلا سے کابل فوری طور پر طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا اور امریکا کی تربیت یافتہ افغان فورسزنے ہتھیار ڈال دیے۔ پورے ملک میں پوری طرح قبضے کے بعد طالبان نے بڑے منظم انداز میں نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لے لیا، اسکولوں کو بند کردیا اور غیر شادی شدہ عورتوں کو اپنے جنگجوؤں کے ساتھ شادی پر مجبور کیا۔ امریکا کو یہ جان لینا چاہیے کہ افغانستان کو یوں طالبان کے ہاتھوں میں دینے سے اس کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ طالبان کی موجودہ اسلامی حکومت دہشت گردی کا مرکز بن سکتی ہے اور یہ خطے میں امن و سلامتی کے لیے بھی خطرہ ثابت ہوگی۔ بیس سال قبل بھی طالبان نے اپنی سرزمین دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے کی اجازت دی تھی۔ اب دوبارہ طالبان کے افغانستان میں قبضے کے بعد، ممکنہ طور پر امریکا پر دوبارہ حملہ ہوسکتا ہے۔۔۔ اس خدشے کا اظہار امریکی حکومت کے ذرائع نے بھی کیا تھا کہ القاعدہ طاقتور ہورہی ہے اور اسے طالبان کا مکمل تعاون حاصل ہے۔
امریکا کو چاہیے کہ وہ ڈپلومیسی کی سطح پر اس بات پر زور دے کہ وہ دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردی کے مراکز کو برداشت نہیں کرے گا۔ جیو پولیٹیکل تناظر میں امریکی انخلا کے بعدچین خطے میں زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آئے گا اور اس کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ اس طرح چین کے توسیع پسندانہ عزائم میں بھی تیزی متوقع ہے۔امریکا انخلا نے چین کو یہ موقع بھی فراہم کردیا ہے کہ وہ افغانستان کی مارکیٹ تک باآسانی رسائی حاصل کرسکے۔
چین اگرچہ طالبان کے افغانستان پرقبضے کے بعد خاصا محتاط ہے، تاہم وہ موجودہ صورتحال سے پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ امریکا کو اس حوالے سے اپنی مؤثر حکمت عملی اپنانی ہوگی تاکہ وہ چین کو اس کے عزائم میں ناکام کر سکے۔ امریکا کو اویغور مسلمانوں پرچین کے ظلم و ستم اور پابندیوں کو مسلم دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے اور انہیں یہ باور کروانا چاہیے کہ چین ان کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔ امریکا کے افغانستان سے انخلاکے بعد اب وہ مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے لیے قابل اعتبار نہیں رہا۔ وہ ممالک جو اپنی سلامتی کے لیے امریکا پر انحصار کرتے تھے اب وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ امریکا ان کی سلامتی کے وسیع تر مفادات کا تحفظ کرنے کا اہل نہیں۔
امریکا کو اپنے تمام حلیفوں بالخصوص تائیوان اور اسرائیل کو یہ اعتماد دینا چاہیے کہ وہ ان کے مفادات اور سلامتی کے لیے پوری طرح تیار ہے۔اس پورے منظر نامے میں امریکا کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ اپنی ساکھ کو کس طرح بحال کرتا ہے۔
(ترجمہ: محمودالحق صدیقی)
“How the Afghan withdrawal impacts US-China competition”.(“defensenews.com”. Sept. 17, 2021)
Leave a Reply