ممیاں (حنوط شدہ لاشیں) ہمیشہ فرعونوں کے نام اور قدیم مصر سے ہی منسوب رہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصر کے علاوہ دنیا کے بیشتر مقامات سے ممیاں دریافت ہوئی ہیں۔ چنانچہ صحراحیلی‘ صحرا کوبی‘ برازیل کے جنگلات‘ سائبیریا کے برفانی علاقے‘ ہر جگہ سے مختلف شکلوں میں ممیاں دریافت ہوتی ہیں۔ لاشوں کے تحفیظ یا تو اسی طریقے سے ہوتی ہے جو معروف ہے اور جس طرح مصری ممیاں تیار کی جاتی تھیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ لاشیں طبعی طور پر خودبخود حنوط شدہ ہو جائیں۔ پوری دنیا میں ممیوں کے وجود کا اصل راز یہی دوسرا طریقہ ہے۔
قبل اس کے کہ اس راز کی گہرائی میں اترا جائے‘ میں اس غلط فہمی کی جانب اشارہ کر دوں‘ جس کو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔ یعنی یہ کہ کیڑے مکوڑے مردم جسم کو کھا جاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری آنتوں کے اندر جو بیکٹیریا پایا جاتا ہے‘ وہ سب سے پہلے اس حرکت کا ذمہ دار ہے۔ ہمارے نظامِ ہضم میں کروڑوں کی تعداد میں مائیکرو بی جراثیم پائے جاتے ہیں اور یہ مائیکرو بی جراثیم اس وقت تک زندہ اور محفوظ رہتے ہیں‘ جب تک ہم بقیدِ حیات رہتے ہیں۔
یہ جراثیم یا بیکٹیریا اصل مسئلہ ہماری وفات کے بعد پیدا کرتے ہیں‘ جب یہ آزاد ہو کر تیزی سے بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں اور ہمارے جسم کے اندر سے کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا اپنا کام اس وقت تک کرتے رہتے ہیں‘ جب تک پورا جسم اپنے ابتدائی عناصر میں تبدیل ہو کر بالکل خاک ہو جاتا ہے۔ اسی حقیقت کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ لاشوں کی تحفیظ یا ممی تیار کرنے کا خیال اسی اساس پر قائم ہے۔ یعنی یہ بیکٹیریا کو اس عمل سے روک دیا جائے کہ وہ جسم کو کسی بھی طریقے سے تحلیل کر سکیں۔ کیونکہ یہ بیکٹیریا جسم کے اندر رہتے ہیں‘ اس لیے فراعنہ مصر آدمی کی وفات کے فوراً بعد اس کی آنتیں نکال لیتے تھے۔ پھر گوند اور پٹیاں لگانے سے پہلے میت کی لاش کو خشک کر لیتے تھے۔
البتہ لاش کی تحفیظ کا یہ عمل جیسا کہ ہم نے ابتدا میں ذکر کیا تھا‘ ہمیشہ مصنوعی طریقے سے ہی انجام نہیں پاتا ہے۔ چنانچہ ٹھنڈے علاقوں میں اس نقصاندہ بیکٹیریا کا عمل موقوف ہو جاتا ہے اور اس طرح جسم خاک میں تحلیل ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔ ۱۹۹۸ء میں الپ کے پہاڑوں پر ایک شکاری کی حنوط شدہ لاش ملی‘ جو دس سال پہلے برف میں دفن ہو گئی تھی۔ سائیبیریا کی برف میں وہاں کے لوگوں کو بڑے بڑے جانوروں کے سالم و محفوظ جسم ملتے رہتے ہیں جو اس لائق رہتے ہیں کہ ان کا گوشت وہ اپنے کتوں کو کھلاتے ہیں۔ اسی طرح تحفیظ اس صورت میں بھی واقع ہو جاتی ہے کہ لاش وفات کے فوراً بعد تیز درجۂ حرات کی بنا پر خشک ہو جائے۔
صحرائے چیلی‘ موہابی اور کوبی کے صحرا میں بلکہ مغربی مصر کے صحرا تک میں اس قسم کی فطری ممیاں دریافت ہوئی ہیں‘ جنہیں سورج کی شعاؤں نے خشک کر دیا تھا۔ مزید برآں بے شمار ممیاں عجیب و غریب حالات میں دریافت ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر بعض ممیاں ایسی بند غاروں میں ملی ہیں‘ جہاں آکسیجن کا کوئی گزر نہیں تھا۔ بعض ممیاں ایسی بھی ملی ہیں‘ جنہیں آتش فشانی لاوے کے ڈھیر نے چُھپا لیا تھا یا مردہ جسم کے اندر ایسے آلودہ عناصر سرایت کر گئے‘ جنہوں نے لاش کو ممی کی شکل دے دی۔ مثال کے طور پر ایسی ممیاں پائی گئیں‘ جو شہد کے ذخیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ان تمام قسم کی ممیوں میں سب سے پہلے یہی ہوا کہ بیکٹیریا کو اپنا کام کرنے سے روک دیا گیا۔
آخر میں اس جانب بھی اشارہ کر دوں کہ ممی سازی قدیم تہذیبوں اور قدیم زمانے ہی سے متعلق نہیں ہے بلکہ موجودہ زمانے میں بھی لاشوں کی تحفیظ کی جاتی ہے۔ بہت سی تحریکوں نے اپنے لیڈران کی لاشوں کو حنوط کے عمل سے گزارا ہے۔ مثلاً روس کے لینن‘ ویتنام کے ہوشی منہ‘ ارجنٹائن کے الفابیرون اور انگولا کے سابق صدر جنرل نیٹو کی لاشیں۔ میں نے شخصی طور پر جو چیز محسوس کی ہے‘ وہ یہ ہے کہ لاشوں کی تحفیظ اب مردے سے نجات پانے کا ایک خاص ذریعہ بنتی جارہی ہے اور مستقبل قریب میں یہ تکنیک مصر کے زمانہ قدیم کی طرح تدفین کی جگہ لے لے گی۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی۔ شمارہ۔ ۱۰ دسمبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply