
امریکا کے عظیم مؤرخ جوہان ہوئزنگا نے انیسویں صدی کے اواخر میں کہا تھا کہ امریکا میں صدارتی مہم دنیا کا سب سے بڑا شو ہے۔ یہ بات اس اعتبار سے غلط نہیں تھی کہ اس انتخابی مہم کے دوران جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ واقعی بہت بڑے شو کا درجہ رکھتا ہے۔ امیدوار ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں، گڑے مُردے اکھاڑے جاتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ ایک دوسرے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ باتیں منظرِ عام پر لائی جائیں۔ ایسی حالت میں حریف کی انتخابی پوزیشن کمزور کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد ملتی ہے۔ امریکا میں سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے۔ ایسے میں دونوں بڑی جماعتوں میں مقاصد اور حکمتِ عملی کے اعتبار سے کچھ زیادہ فرق نہیں۔ دونوں ہی جماعتیں قومی سلامتی اور دیگر قومی مفادات کو غیر معمولی اہمیت دیتی ہیں۔ ان کی پالیسیوں میں کوئی ایسا جوہری فرق نہیں پایا جاتا جس کی بنیاد پر ترجیحاً ووٹ دیا جائے۔ ایسے میں انتخابی مہم کے دوران سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ کون کس حد تک ذاتی حیثیت میں دوسرے کو نشانہ بناسکتا ہے۔ حریفوں کو ذاتی حیثیت میں نشانہ بنانے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔
امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران تماشائیوں کے پیسے پوری طرح وصول ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکی صدارتی انتخابی مہم میں عوام اور ادارے امیدواروں کو عطیات دیتے ہیں۔ ان عطیات کی مدد ہی سے امیدوار اپنی انتخابی مہم چلاتے ہیں۔ برنی سینڈرز کو موجودہ انتخابی مہم کے لیے فی کس ۲۷ ڈالر کی شرح سے عطیات ملے ہیں۔ دوسرے امیدواروں کو مالدار امریکیوں اور ان کے اداروں کی طرف سے عطیات ملے ہیں۔ یہ عطیات امیدواروں کو اس بات کی ہمت عطا کرتے ہیں کہ وہ میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف مہم چلائیں۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ امریکا میں صدارتی مہم چل رہی ہے۔ امیدوار ایک دوسرے کو نشانہ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور برنی سینڈرز کی اٹھان اچھی ہے۔ میڈیا میں ان دونوں کا غلغلہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ری پبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کے لیے بہت محنت کی ہے۔ وہ تشہیرکاری کے ماہر ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کون سی چیز کب اور کتنے دام پر فروخت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے معاشی بحالی کی سست رفتار اور دہشت گردی کے خدشے یا خطرے کو بہت اچھی طرح استعمال کرکے امریکیوں کی خاصی معقول تعداد کو اپنا بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ان کی تقریر میں بڑھک کا انداز نمایاں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ثابت کیا ہے کہ وہ عوام کے جذبات بھڑکا کر اپنی انتخابی کامیابی یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ عوام کو درپیش مسائل بہت عمدگی سے بروئے کار لاتے ہوئے ایک ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جو انہیں زیادہ سے زیادہ ووٹ دلائے۔ یہ کوئی بری بات نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ متنازعہ کرکے حاصل کی جانے والی انتخابی کامیابی سنجیدگی سے کام کرنے میں کس حد تک مدد دے سکتی ہے۔
مگر یہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ امریکا میں انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی بنیاد بناکر تنازعات کھڑے کرنے کی روایت برقرار رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ بھی لوگوں کو اب تک یاد ہے۔ جوزف میکارتھی، جارج والس اور پیٹ بوچینن نے عوام کے جذبات کو زیادہ سے زیادہ اپیل کرنے کے لیے بنیادی مسائل کو اٹھاکر اپنی انتخابی مہم چلائی تھی اور ایسا کرنے میں وہ غیر معمولی حد تک کامیاب بھی رہے تھے۔
تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہر معاملے میں ہمیشہ ایک مخالف ردعمل بھی پایا جاتا ہے، بالخصوص انتخابی ماہ و سال کے دوران۔ موسم گرما گزر جائے تو انتخابی مہم کا حتمی مرحلہ شروع ہوگا، تب لوگ تمام معاملات کا خود جائزہ لے کر فیصلہ کریں گے کہ کس پارٹی کے ہاتھ میں اقتدار دیا جائے۔ دونوں بڑی جماعتوں میں جنونی عناصر اب تک تو بہت نمایاں اور فعال رہے ہیں تاہم اب ایسا نہیں ہوگا۔ جو ووٹر اب تک اپنا ذہن بنا نہیں سکے ہیں، انہیں زیادہ سے زیادہ اپیل کرنے کے لیے سنجیدگی کا اپنایا جانا لازم ہے۔ اب کوشش کی جائے گی کہ تھوڑی بہت متانت کا بھی مظاہرہ کیا جائے تاکہ معاملات میں کچھ تو تبدیلی دکھائی دے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اگر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بڑی تبدیلی کے محرّک بن سکتے ہیں تو انہیں اعتدال کی راہ پر گامزن ہونا پڑے گا۔ سادہ لفظوں میں کہا جائے تو یہ کہ انہیں خاصا صدارتی انداز اختیار کرنا پڑے گا۔ عوام ان میں سنجیدگی دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ اندازہ لگا سکیں کہ جب وہ صدر کے منصب پر بیٹھیں گے تو کس طور سوچیں گے، کیا بات کریں گے اور اقدامات کی نوعیت کیا ہوگی۔ امریکی صدر کے منصب پر اُسی کو بیٹھنا چاہیے جس میں واقعی قابلیت پائی جاتی ہو، مزاج متلوّن نہ ہو اور فیصلے کرنے کی صلاحیت اور سکت غیر معمولی ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی سے اپنی ٹیم میں واشنگٹن کے پال مینیفرٹ کو شامل کرلیا ہے جو فلپائن کے فرڈینینڈ مارکوس جیسے بہت سے ایشیائی اور افریقی رہنماؤں کے قریب رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی ٹیوشن لینا شروع کردی ہے۔ وہ اب تک ری پبلکن پارٹی کی قیادت کی بھی توہین کرتے رہے ہیں مگر اب مینیفرٹ اور دیگر مشیروں نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ زیادہ نرم رویّہ اختیار کریں، پارٹی کی مرکزی قیادت سے تعلقات بہتر بنائیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ضروری کہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں ٹرمپ کو ملک کے لیے بہت سے ایسے فیصلے کرنا پڑیں گے جن کے لیے غیر معمولی ذہانت اور سنجیدگی درکار ہوا کرتی ہے۔ اگر وہ سب سے بگاڑ مول لینے کی راہ پر گامزن رہیں گے تو معاملات صرف خرابیوں کی نذر ہوتے رہیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ اب انہیں بہت سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے۔ ان کے لیے حقیقی کامیابی کی راہ اسی وقت ہموار ہوسکتی ہے جب وہ کسی بھی اہم معاملے پر کچھ بولتے وقت احتیاط کا دامن نہ چھوڑیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ عوام کے مزاج کو تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ انہوں نے مسلمانوں، ہندوؤں، یہودیوں، غیر قانونی تارکین وطن اور دیگر موضوعات پر اب تک جو کچھ کہا ہے، اسے دہرانے سے واضح طور پر گریز کر رہے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں بے دھڑک کچھ بھی بول جانا سودمند ثابت نہیں ہوتا۔
نیویارک اور کیلی فورنیا جیسی ریاستوں میں ٹرمپ کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ پنسلوانیا، میری لینڈ اور انڈیانا میں ٹرمپ کو اپنی واضح برتری ثابت کرنی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ چند ایک ریاستوں میں ان کی پوزیشن خاطر خواہ حد تک مضبوط نہ ہو مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ متوقع ری پبلکن امیدواروں میں وہ سب سے مضبوط ہوکر ابھرے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ممکنہ طور پر ان کا مقابلہ ہلیری کلنٹن سے ہوگا۔ وہ سابق خاتون اوّل ہی نہیں، سابق وزیر خارجہ بھی ہیں۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے ملک کے معاملات کو جس قدر نزدیک سے دیکھا اور سمجھا ہے، اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ حقیقی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کو ان کی طرف سے غیر معمولی حملوں کا سامنا ہوگا اور ٹرمپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ بھی امریکی خارجہ پالیسی سے متعلق نزاکتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہلیری کلنٹن نے خاتون اول کی حیثیت سے وائٹ ہاؤس میں آٹھ سال قیام کیا۔ انہوں نے سینیٹر کی حیثیت سے ۶ سال مسلح افواج سے متعلق کمیٹی میں گزارے۔ اور پھر وزیر دفاع کی حیثیت سے ۶ سال تک خدمات انجام دیں۔ وائٹ ہاؤس سے ان کا تعلق کم و بیش ۲۰ سال کا ہے۔ بلاخوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ کوائف (سی وی) کے اعتبار سے ہلیری امریکی تاریخ کی سب سے مضبوط صدارتی امیدوار ہیں۔
برنی سینڈرز کے بارے میں کہا جاسکتا تھا کہ وہ ہلیری کلنٹن کے لیے ایک بڑے خطرے کے روپ میں ابھر رہے ہیں مگر نوجوانوں کو اپیل کرنے کے باوجود شکست کے بعد ان کے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار بننے کے امکانات خاصے کمزور ہوچکے ہیں۔ برنی سینڈرز کے پاس اب صرف ایک راستہ رہ گیا ہے، یہ کہ متوقع ری پبلکن امیدوار کے مقابل ہلیری کلنٹن کی مدد کریں، ان کی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کریں۔ اور انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ گرینڈ اولڈ پارٹی کسی زمانے میں بین الاقوامی نوعیت کی جماعت تھی۔ اور اس کی سوچ میں اعتدال پسندی بھی تھی مگر اب ایسا نہیں ہے۔ بارہ پندرہ سال میں ری پبلکن پارٹی بہت سے تیزی سے دائیں بازو کی طرف مزید جھکی ہے، جس کے نتیجے میں خرابیاں بڑھ گئی ہیں اور پارٹی کی قیادت اعتدال کی راہ سے ہٹ چکی ہے۔
اس بار پھر امریکی صدارتی انتخابات دراصل دو امریکاؤں کے درمیان مقابلے کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ ایک طرف دیہات میں رہنے والا بہت محدود نوعیت کا امریکا ہے اور دوسری طرف تیزی سے وسعت پاتا ہوا، بین الاقوامی نوعیت کا امریکا ہے۔ اپنے سیاسی ورثے کو وسعت دینے اور زیادہ سے زیادہ دیر تک محفوظ رکھنے کے لیے باراک اوباما بھی ہلیری کلنٹن کی بھرپور حمایت کریں گے۔ یہ بات ابھی سے محسوس ہو رہی ہے کہ کامیابی اسے نہیں ملے گی جو عوامی سطح پر بھرپور انتخابی مہم چلانے میں کامیاب ہوگا بلکہ وائٹ ہاؤس میں داخل وہ ہی ہوگا جس کی انتخابی مہم حقیقت پسندی پر مبنی نکات کے گرد تیار کی گئی ہوگی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو ابھی مزید ابھر کر، زیادہ مضبوط ہوکر سامنے آنا ہے۔ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں۔ انہیں اپنی سنجیدگی ثابت کرنا پڑے گی اور امریکیوں کو بتانا پڑے گا کہ ان کے پاس کوئی واضح پروگرام ہے۔ ان کے مقابل ہلیری کلنٹن ہیں جن کی پوزیشن اب تک بہت واضح ہے اور وہ اپنی صدارتی مہم بھرپور انداز سے چلانے کی تیاری بھی پوری دل جمعی سے کر رہی ہیں۔ اس معاملے میں ایوان ہائے اقتدار میں گزارے ہوئے بیس برس ان کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Trumps metamorphosis and the odds of a ‘First Lady President’.”(“clingendael.nl”.April 26,2016)
Leave a Reply