یاسر قاضی کا میر قاسم علی کی پھانسی پر گہرے دکھ کا اظہار

بنگلا دیشی حکومت کی جانب سے میر قاسم علی کو پھانسی دینے کی خبر سن کر دلی دکھ ہوا۔نہ صرف بنگلا دیش کے لوگ بلکہ بنگلا دیش سے باہر رہنے والے بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ موجودہ وزیر اعظم ،حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے کے لیے نام نہاد ’’مذہبی انتہا پسندی‘‘ اور’’جنگی جرائم ‘‘جیسی جذباتی معاملات کو استعمال کر رہی ہے۔ نہ صرف عالمی تنظیموں نے بلکہ اقوام متحدہ نے بھی نام نہاد عدالتی ٹرائل پر حکومت سے احتجاج کیا ،ان مقدمات کی سماعت کے دوران نہ تو عالمی قوانین کی پاسداری کی جا رہی ہے اور نہ ہی صحیح عدالتی طریقہ کار کو اپنایا جا رہا ہے۔مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ بنگالی ۱۹۷۱ء میں ہونے والے واقعات کے حوالے سے کتنے جذباتی اور حساس ہیں۔یہ بات ذہن میں رہے کہ نہ تو میں یہاں ان واقعات کا تجزیہ کر رہا ہوں ،نہ ہی ان کا دفاع!میرا نکتہ بہت سادہ ہے کہ یہ کسی طرح ثابت نہیں ہو سکا کہ میر قاسم ۱۹۷۱ء میں ہونے والی خونریزی کا حصہ تھے۔ان کا اصل جرم ان کی ’’مذہبی تنظیم ‘‘سے وابستگی تھی۔ وہ اور ان کی جماعت اس وقت موجوہ حکومت کے لیے بہت بڑاسیاسی خطرہ بن چکے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کی مذہبی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے یہ سیاسی ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں اور میر قاسم علی اس بڑی فہرست میں سے ایک نام تھا جن کو مستقبل میں بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا،جن لوگوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں (چاہے ۱۹۷۱ء کے واقعات میں بہنے والے خون سے یا پھر ۲۰۱۶ ء کے بے گناہوں کے) ان کو قیامت کے دن اپنے جرائم کا لازمی جواب دینا ہوگا۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ میر قاسم اور ان کے ساتھی جن کوظلم کا نشانہ بنایا گیا اور تختہ دار پر لٹکایا گیا ،ان کی شہادت کو قبول فرمائے۔

(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)

“Yasir Qadhi expresses deep shock over the unjust execution of Shaheed Mir Quasem Ali”.

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*