
دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ سو میں گزشتہ ڈیڑھ ہفتے سے صرف یہ چیک کر رہا ہوں کہ کیا میر قاسم علی کی پھانسی پر ہمارے وزیراعظم‘ صدرِ مملکت، جناب پرویز رشید اور دو وفاقی وزراء، ایک وزیرِ مملکت اور وزارت کے دو تین امیدوار ڈھولچیوں نے بھی اس معاملے میں لب کشائی کی ہے؟ میری اس ساری تحقیق و تفتیش کا نتیجہ صفر برآمد ہوا ہے۔
لیکن بعض اوقات خواہ مخواہ کی خوش گمانی آپ کی امیدوں کا پیمانہ بلند کردیتی ہے۔ مجھے گمان ہوا ‘ممکن ہے ہمارے وزیراعظم یا صدرکو میر قاسم علی کی پھانسی سے پہلے پھانسی کا پھندہ چومنے والے مطیع الرحمان نظامی کے رحلت پر ترک صدر کی دبنگ تقریر نے جھنجھوڑا ہو اور اس بار شاید وہ بھی پاکستان پر قربان ہونے والے اس جانثار کی پھانسی پر دو حرف کہہ دیں مگر ہمارے حکمرانوں میں اتنی جرأت اور ہمت کہاں کہ وہ اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہوسکیں۔ چلیں امریکی ڈرون حملوں پر تو کہا جاسکتا ہے کہ ہم امریکا کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔ چلیں برطانیہ کی ایم آئی سکس الطاف حسین کی پشت پناہی کرتی ہے تو ہم مجبوری دکھا سکتے ہیں کہ ہم برطانیہ کا کچھ نہیں کرسکتے۔ برطانیہ میں لاکھوں پاکستانی رہتے ہیں جو اربوں روپے کا زرمبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں۔ ہم نیچے کھڑے ہیں جبکہ برطانیہ اوپر ہے، لیکن بنگلادیش سے ڈرنے اور گھبرانے کی سمجھ نہیں آتی۔ خاص طور پر جبکہ ملک کی سالمیت کے لیے جان دینے والوں کا سوال ہو۔ عزت اور غیرت والے ممالک ایسے معاملات پر ہرقسم کی احتیاطیں بالائے طاق رکھ دیتے ہیں کہ ایسی خاموشی مستقبل میں ملکی سالمیت کے لیے اٹھنے والوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ریاست آپ کے اس وفادارانہ فعل کی ذمہ دار نہیں اور اس کے انجام و عواقب آپ خود بھگتیں گے۔
ترکی کے صدرکا بنگلادیش سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ مطیع الرحمان نظامی کا تعلق ترکی سے نہیں تھا۔ اس نے ترک فوج کی بغاوت کچلنے کے لیے صدراردوان کی حمایت میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ بنگلادیش کے قیام کے سلسلے میں ترکی کبھی فریق نہیں رہا تھا، تو آخر ترک صدر کے پیٹ میں مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی پر اتنا شدید درد کیسے اٹھا کہ اس نے بنگلادیش سے اپنا سفیر واپس بلا لیا‘ معاملہ ناانصافی کا تھا‘ معاملہ ایک بے گناہ کو پھانسی چڑھانے کا تھا اور معاملہ ایک مذہبی اقدار کے حامل شخص کو جھوٹ کے رسّے پر لٹکانے کا تھا۔
مشرقی پاکستان سے بنگلادیش بننے کی کہانی کی پہلی مضبوط کڑی ’’اگرتلہ سازش‘‘ کیس تھی۔ بھارت کی ریاست تری پورہ کے شہر اگرتلہ میں اس سازش کے تانے بانے بُنے جانے کی بنیاد پریہ اگرتلہ سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا جس میں مجیب الرحمان سمیت ۳۵ افراد پر بغاوت کے ذریعے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش کا الزام تھا۔ اب اس پورے کیس کی تفصیل میں کیا جاؤں کہ یہ ایک کالم میں سمٹنے والا معاملہ نہیں۔ مختصراً یہ کہ ۱۹۶۸ء کے آغاز میں مجیب الرحمان اور دیگر ۳۴ افراد گرفتار ہوئے۔ جسٹس ایس اے رحمان، ایم آر خان اور مقسوم الحکیم پر مشتمل ٹربیونل قائم ہوا۔ جون ۱۹۶۸ء میں مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی۔ جسٹس ایس اے رحمان غیر بنگالی جبکہ دونوں موخرالذکر بنگالی تھے۔ استغاثہ کی طرف سے اٹارنی جنرل ٹی ایچ خان جبکہ سابقہ وزیرخارجہ منظور قادر اور برطانوی وکیل تھامس ولیم وکیل صفائی تھے۔ قصہ کوتاہ، ہنگامہ آرائی، احتجاج اور پھر ممتاز دولتانہ کی طرف سے فروری ۱۹۶۹ء میں ہونے والی گول میز کانفرنس کے بائیکاٹ کی دھمکی پر مجیب الرحمان کو ۲۲ فروری ۱۹۶۹ء کو مقدمہ ختم کرکے رہا کردیا گیا۔ ہمہ وقت پاکستان پر الزام تراشیوں میں مصروف و مشغول دانشوروں نے اس سارے مقدمے کو پاکستان کی سالمیت کے خلاف سازش کے بجائے پاکستانی حکومت کی سازش قراردیا اور شیخ مجیب الرحمان کو محب وطن قراردیا۔ خود شیخ مجیب نے اس سارے مقدمے کے دوران ایک بار بھی اعتراف جرم نہ کیا اورپورے شدومد کے ساتھ باربار یہ دہرایا کہ وہ متحدہ پاکستان کا حامی ہے۔ اس سلسلے میں مجیب الرحمان نے عدالت میں ایک بیان حلفی بھی جمع کروایا۔ اگرتلہ سازش کیس کو ہمیشہ ہی ایک متنازعہ معاملے کے طور پر اچھالا گیا اور ایک خاص طبقے نے‘ جسے پاکستان کی خرابیاں گنوانے اور اچھالنے سے فرصت نہیں ملتی‘ اسے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سازش قراردیا تاوقتیکہ اگرتلہ سازش کیس کے خاتمے کی ۴۲ ویں سالگرہ پر بائیس فروری ۲۰۱۱ء کو بنگلادیش اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر سخاوت علی نے اسمبلی کے فلور پر بیان دیا کہ انہوں نے ’’سنگرم پریشد‘‘ (ایکشن کمیٹی) شیخ مجیب الرحمان کی سربراہی میں مشرقی پاکستان کی آزادی کے لیے بنائی تھی۔ یاد رہے کہ سخاوت علی بذات خود ان ۳۴ افراد میں سے ایک تھا جسے مجیب الرحمن کے ہمراہ اس بغاوت کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا۔ تب سخاوت علی ’’کیپٹن سخاوت علی‘‘ تھا۔ پارلیمان کے ممبر طفیل احمد نے مزید کہا کہ اگر یہ کیس نہ بن جاتا تو ہم ۱۹۶۸ء میں بغیر کسی خونریزی کے بنگلادیش بنانے میں کامیاب ہو جاتے۔ یہ بیان ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو شیخ مجیب الرحمان کو محب وطن اور اگرتلہ سازش کیس کو بے بنیاد کہتے تھے۔ بعد میں جب ۱۹۷۱ء میں مکتی باہنی وغیرہ کا معاملہ، بھارت کا حملہ، الشمس اور البدر کے قیام کی بات ہوتی ہے تو ہر فریق یک رخا نقشہ پیش کرتا ہے۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں بھی درج ہے کہ مجیب الرحمان نے کبھی متحدہ پاکستان سے علیحدگی کی بات نہ کی اور خود کو پاکستان کا وفادار کہا۔ اس سلسلے میں اس نے ایک بیان حلفی بھی دیا۔ جب بنگلادیش میں ۱۹۷۱ء کے نام نہاد جنگی جرائم کے تحت ٹربیونل میں مقدمات شروع ہوئے اور تب کے محب وطن پاکستانیوں کو ’’غداری‘‘ کے جرم میں پھانسیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ملزمان کا صفائی کا وکیل پاکستان آیا اور اس نے چاہا کہ وہ حلف نامہ مل جائے تاکہ اسے ٹربیونل میں پیش کرکے بتایا جائے کہ تب بھی متحدہ پاکستان کی حمایت کرنا جرم یا ’’بنگلہ بندھو‘‘ (مجیب الرحمان) سے غدار نہیں تھا کیوں کہ ’’بنگلہ بندھو‘‘ اس وقت تک اپنے بیانات کی حد تک پاکستان کا وفادار اور متحدہ پاکستان کا حامی تھا‘ لہٰذا ان افراد پر بنگالی کاز سے غداری کا الزام سرے سے غلط ہے۔ صفائی کے وکیل کو اس حلف نامے کی اصل کاپی ہی دستیاب نہ ہو سکی۔ حمود الرحمان کمیشن کی فائل سے یہ کاپی غائب تھی۔ معلوم ہوا کہ فلاں لوگ لے گئے تھے۔ وہاں سے پتا چلا کہ ان سے کوئی اور لے گیا تھا اور آخری والوں نے پکڑائی ہی نہ دی۔ وکیل یہاں سے مایوس ہو کر واپس بنگلادیش چلا گیا تاکہ پھانسی پانے والوں کی نماز جنازہ میں تو شرکت کرسکے۔
۲۰ اگست ۱۹۷۱ء کو نوجوان پائلٹ راشد منہاس مسرورایئربیس کراچی سے اپنے جیٹ طیارے پر پرواز کے لیے روانہ ہوا۔ اکیلے جہاز اڑانے کے حوالے سے یہ اس کی دوسری فلائٹ تھی جب اچانک ایک بنگالی افسر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان نے اسے اشارہ کیا کہ رُکے، پھر وہ (مطیع الرحمان)خود جمپ مار کرجہاز پر بیٹھ گیا اور جہاز نے اُڑان بھری۔ تھوڑی دیر بعد راشد منہاس نے مسرور ایئربیس پر اطلاع دی کہ اس کا جہاز اغوا ہوگیا ہے۔ ایئربیس والوں نے دوبارہ پوچھا تو بھی یہی جواب دیا گیا۔ مطیع الرحمان اس جہاز سمیت بھارت میں موجود اپنے ان ساتھیوں کے پاس جانا چاہتا تھا جو بنگلادیش کی ’’جنگ آزادی‘‘ میں مصروف کار تھے۔ راشدمنہاس نے جہاز بھارت کی جانب لے جانے کے بجائے واپس موڑنے کی کوشش کی۔ اسی کشمکش میں جہاز زمین سے ٹکرایا۔ راشد منہاس کو اس بہادری پر پاکستان آرمی کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’نشان حیدر‘‘ عطا کیا گیا۔ بیس سالہ راشد منہاس آج بھی بہادری کا یہ سب سے اعلیٰ ایوارڈ لینے والا کم عمر ترین شہید اور پاک فضائیہ کا واحد نشان حیدر حاصل کرنے کا اعزاز رکھتا ہے۔ بہادری کا یہ باب یہاں پر ختم ہوگیا لیکن اس کے بعد کی کہانی بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔
فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کو مسرور ایئربیس کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ بنگلادیش کی سرکار نے ۱۹۷۶ء میں اس کی میت کی واپسی کے لیے کاوشیں شروع کیں اور اس سلسلے میں مسلسل تگ و دو کے بعد چوبیس جون ۲۰۰۶ء کو یعنی مطیع الرحمان کی موت کے ۳۵ برس بعد بالآخر اس کی میت کو ڈھاکا لے گئے۔ شاید چندہی پاکستانیوں کو معلوم ہو کہ اس کی میت مسرور کے قبرستان سے ڈھاکا کے قریب میرپور میں ’’دانشور شہدائے بنگلادیش‘‘ کے قبرستان میں منتقل ہو چکی ہے۔ اگر اصولوں کودیکھا جائے تو پاکستان ایئرفورس کا حاضر سروس ملازم وردی میں غداری کرتا ہوا مارا گیا۔ اس پر پاکستان کی حکومت نے ٹکے کا اسٹینڈ نہ لیا۔ میت بنگلادیش کے حوالے کر دی۔ میت کی یہ منتقلی “Goodwill Gesture” یعنی خیرسگالی کے اظہار کے طور پر عمل میں آئی۔ بنگلادیش میں اسے ایک انتہائی اعلیٰ درجے کی تقریب میں بنگلادیشی پرچم میں لپیٹ کر اور اکیس توپوں کی سلامی دے کر دفن کیا گیا۔ اسے بنگلادیش کے اعلیٰ ترین بہادری کے ایوارڈ ’’بیرسریشتھو‘‘ (Birsreshtho) سے نوازا گیا جو اسے بنگلادیش کی جنگِ آزادی میں بہادری دکھانے کے عوض دیا گیا۔ بنگلادیش ایئرفورس میں دورانِ تربیت بہترین پائلٹ قرار دیے جانے والے ہواباز کو اس کے نام سے جاری کردہ ٹرافی دی جاتی ہے اور جیسور ایئربیس کو مطیع الرحمان کے نام سے معنون کر دیا گیا۔
ایک وہ مطیع الرحمان تھا جس نے پاکستان کی خاطر اپنی جان قربان کی اور ان جرائم میں پھانسی کا سزاوار قرار پایا جو متحدہ پاکستان کے دوران پاکستان کو متحد رکھنے کے جرم میں اس پرعائد کیے گئے۔ یعنی وہ اس وقت اپنے وطن کی سالمیت میں مصروفِ کار تھا‘ آج اس کا پاکستان میں کوئی وارث نہیں۔ دوسری طرف ایک باوردی غدارِ وطن کی میت کو اس کا ملک عزت و آبرو سے واپس لاتا اور اعلیٰ ترین بہادری کے تمغے سے نوازتا ہے۔ حسینہ واجد اور ہمارے حکمرانوں کی ملک دوستی اور محب وطن لوگوں سے محبت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
میرقاسم علی کی پھانسی دراصل ہماری سنگ دلی، سردمہری‘ بے حمیتی کا شاخسانہ ہے۔ اس کی موت بنگلادیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے ہاتھوں نہیں، ہمارے ہاتھوں ہوئی ہے۔ اگر ہم اپنے مطیع الرحمان کو اسی طرح اپنا مانتے جس طرح بنگلادیش نے اپنے مطیع الرحمان کو اپنا مانا ہے تو آج میر قاسم علی اس طرح کسمپرسی میں پھانسی کے پھندے پر نہ جھولتا۔ خیر یہ تو میرقاسم تھا۔ ابھی اور کئی مطیع الرحمان نظامی اور میر قاسم علی پھندے کو چومنے کے منتظر ہیں۔ حکمران بے حس ہوں تو تاریخ میں اس قسم کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۱۶ ستمبر ۲۰۱۶ء)
Its a v good effort IRAK is putting in issuing the electronic edition of the journal.
مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ مغربی پاکستانی حکمران طبقے کے امتیازی سلوک کی وجہ سے پاکستان تقسیم ہوا ہے۔