القاعدہ ۔۔۔سوچ کی تین لہریں

مارک سیج مین نے ایک غیرامکانی راستہ نقش کیا ہے۔ یہ نیویارک سٹی پولیس ڈپارٹمنٹ میں پہلا وزیٹنگ اسکالر ہے جو ہالوکاسٹ کے دوران زندہ بچ گیا اور پھر ماہر علومِ عمرانیات اور ماہرِ امراض دماغی ہونے کے ساتھ سی آئی اے میں کیس افسر بھی بنا۔ اس سال کے اوائل میں “Leaderless Jihad” (جہاد، بغیر رہنما) کی اشاعت کے وقت سے سیج مین القاعدہ کی اندرونی سرگرمیوں سے متعلق مباحث کے محور رہے ہیں۔ کیا یہ تنظیم بکھر چکی ہے یا غیرمنظم ہو گئی ہے جیسا کہ سیج مین کا خیال ہے یا یہ پھر سے قوت پکڑ رہی ہے جیسا کہ سی آئی اے کے تجزیہ نگاروں کی رپورٹ ہے؟ سیج مین نے نیویارک میں ’’نیوزویک‘‘ کے صحافی کرسٹوفر ڈِکّی سے گفتگو کی ہے جس کا متن درج ذیل ہے:

ڈِکّی: آپ نے نازی گروپ Einsatz-gruppen جو کہ یہودیوں اور دیگر لوگوں کا تعاقب کرنے کے لیے رضاکار ٹاسک فورسز کے طور پر تھا، کی سرگرمیوں اور آج کے دہشت گردوں کی کارروائیوں کے مابین مماثلت بتائی ہے۔ آپ نے یہ ربط کس طرح قائم کیا ہے؟

سیج مین: اینساز گروپین نامی گروہ درحقیقت ایک نمبر دھوکا باز تھا نہ کہ فکر ساز۔ یہ لوگ اپنی فیملیاں رکھنے کے باوجود قتل کی واردات کرتے تھے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے اس گروپ کی سرگرمیوں پر غور کرنے پر مجبور کیا۔ میں نے پینی سلوانیا یونیورسٹی میں ایک کورس پڑھانے کا آغاز کیا جو بہت مقبول ہوا۔ کورس کا موضوع تھا ہالو کاسٹ کے مرتکبین کی اخلاقی نفسیات۔ جب گیارہ ستمبر کا واقعہ ہوا تو اینساز گروپین اور جہاز اغوا کاروں کے مابین مماثلت میرے شاگردوں پر بھی عیاں ہو گئی۔ گروپ کی علامات کو دہشت گردی کے مطالعے میں یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

ڈِکّی: Leaderless Jihad پر بنیادی تنقید یہ ہے کہ آپ نے چھوٹے گروہوں کی سرگرمیوں کو اُجاگر کرنے پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور القاعدہ کی قیادت اور ان کی مجموعی سرگرمیوں پر بہت زیادہ زور نہیں دیا ہے۔

سیج مین: میں نے ہیمبرگ میں گیارہ ستمبر آپریشن کے اُن لیڈروں پر جو وہاں پر رہتے تھے، نظر رکھتے ہوئے بہت وقت گزارا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایسے لوگوں کا گروہ ہے جو ایک ساتھ جمع ہو گئے اور کچھ کر گزرنے کے عزم سے معمور تھے۔ یہ سبھی لوگ بہت پُرجوش تھے اور خاموشی سے کچھ لوگوں کے احکامات کی تعمیل میں سر جھکانے والے نہیں تھے۔ یہ لوگ خود فکر ساز تھے۔ یہ لوگ القاعدہ کی تلاش میں افغانستان گئے۔ جب القاعدہ سے ان کا رابطہ ہو گیا تو القاعدہ نے انھیں کوئی رخ دیا۔

ڈِکّی: القاعدہ سے متعلق دہشت گردی کی تین لہروں کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہ کون سے ہیں؟

سیج مین: ایک لہر بن لادن کے ساتھیوں کی صورت میں تھی۔ یہ لوگ اشراف میں سے تھے۔ ان میں کوئی ۲۰ فیصد لوگ ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے تھے۔ دوسرا گروہ ان افراد پر مشتمل تھا جو نوے کی دہائی میں شامل ہوئے تھے۔ ان میں بیشتر طالب علم تھے جو مغرب میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئے تھے۔ وہ بھی دانشور تھے۔ تیسرا گروہ البتہ ان دونوں گروہوں کے برعکس تھا۔ یہ بدمعاش نوجوانوں کا گروہ تھا جنہوں نے ازخود اپنے اوپر القاعدہ کا لیبل لگا لیا تھا تاکہ امریکا ان سے خوف کھائے۔ یہ گروہ نوجوانوں کے لیے بہت پُرکشش تھا۔ لیکن یہ لوگ کندۂ ناتراش تھے اور محض القاعدہ کی نقالی کرنے والے تھے۔ لہٰذا ان کی سرگرمیاں بھی پہلے دو گروہوں سے بہت مختلف تھیں۔ لیکن پہلے دو گروہ اب بھی اطراف میں موجود ہیں۔ ہم نے جہاں اپنی نگرانی میں ڈھیل دی یہ اُسی وقت گیارہ ستمبر جیسی کوئی تباہ کن کارروائی کر بیٹھیں گے۔

ڈِکّی: اس گروپ کے نزدیک ہالی ووڈ طرز کی تباہ کن کارروائیوں کے نظارے کی کیا اہمیت ہے؟

سیج مین: گیارہ ستمبر اُن نوجوانوں کے لیے دعوتِ شمولیت کے پوسٹر کی مانند تھا جو اپنی زندگی میں کسی سمت کے متلاشی تھے۔

ڈِکّی: القاعدہ پر علمی اور پالیسی مباحث کا ایک بڑا حصہ نظریاتی اور مذہبی سوالات پر مذکور ہے مثلاً خلافت کے قیام کی خواہش۔

سیج مین: یہ غلط ہے۔ ممکن ہے اس کے اثرات پہلے دو گروہوں پر ہوں لیکن تیسرا گروہ قدرے قدامت پرست ہے۔ یہ عظمت و افتخار کے نشے سے مخمور ہے اور اخبار کے صفحۂ اوّل کی زینت بننا چاہتا ہے۔

ڈِکّی: لہٰذا اپ کی نظر میں بہترین حکمتِ عملی کیا ہے؟

سیج مین: جہاں تک پہلے دو گروہوں سے متعلق حکمتِ عملی کا تعلق ہے تو یہ بہت آسان ہے۔ ہمیں ان لوگوں کو گرفتار کرنا ہے اور قتل کر دینا ہے۔ اس لیے کہ ہم ان کو ان کی روش ترک کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ جہاں تک تیسرے گروہ کا تعلق ہے تو انھیں قابو میں کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ ان کے احساسِ عظمت کو دہشت گردی سے نکال کر دہشت گردی سے متاثرہ افراد کی جانب لے جائیں۔

ڈِکّی: امریکا کو اب کیا کرنا چاہیے جو یہ اب تک نہیں کرتا رہا ہے؟

سیج مین: آپ لوگوں کو اپنی جانب لانے کے لیے کوئی بھی مثبت کام نہیں کر سکتے ہیں لیکن آپ لوگوں کو اپنے سے دور کرنے کے لیے بہت سارے منفی کام کر سکتے ہیں۔ ان میں سے گوانتا ناموبے ایک ہے اور ابو غریب دوسرا ہے۔

ڈِکّی: عراق کی پوری جنگ بھی؟

سیج مین: ہاں! عراق بھی مطلقاً۔ ہم نے دنیا کے ایک بڑی حصے کو اپنے خلاف کر لیا ہے۔ لیکن دوسری جانب بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ القاعدہ نے عراق میں بہتیری غلطیاں کیں جن کی وجہ سے عوام ان کے خلاف ہو گئے اور انھوں نے یہی غلطیاں افغانستان اور پاکستان میں بھی دوہرانا شروع کر دی ہیں۔ ۱۲ مئی ۲۰۰۳ء سے پہلے سعودی معاشرہ ان کی پشت پر تھا۔ پھر انھوں نے سعودی عرب میں بم دھماکے شروع کر دیے۔ وہ پے در پے غلطیاں کر رہے ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان غلطیوں کو کیش کرانا شروع کر دیں۔

(بشکریہ: ہفت روزہ ’’نیوزویک‘‘۔ شمارہ: ۲۸ جولائی ۲۰۰۸ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*