محمد قمرالزماں شہید، ایک تعارف

محمد قمرالزماں اپنے ہم عصروں میں ایک صاف گو انسان اور بہترین رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ایک ایسے انسان جو مصائب کا سامنا بھی ہمیشہ پُرسکون انداز میں کرتے تھے۔ ایک واضح اور مضبوط رائے اور شخصیت کے حامل اور غور و فکر میں مشغول رہنے والے محمد قمر الزماں اپنی شہادت تک جماعت اسلامی بنگلا دیش کے سینئر اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل تھے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

محمد قمر الزماں ۴ جولائی ۱۹۵۲ء کو ضلع شیرپور، بجیت کھالی یونین کے مودی پاڑا گائوں کے ایک معروف مسلم خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے آبائی گائوں میں واقع کامری کالی تولہ گورنمنٹ پرائمری اسکول سے کیا۔ انہیں اپنے اسکول میں ہمیشہ اوّل آنے کا اعزاز حاصل رہا۔ آٹھویں جماعت میں انہیں جے کے ایم شیرپور انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے رہائشی اسکالر شپ ایوارڈ ملا۔ ۱۹۶۷ء میں انہوں نے اسی اسکول سے پہلی ڈویژن اور چار مضامین میں ۸۰ فیصد سے زیادہ نمبروں کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس شاندار نتیجے کی بدولت انہیں ایک بار پھر رہائشی (Residential) اسکالر شپ سے نوازا گیا۔ بعدازاں انہوں نے جمال پور، ا شیک محمود کالج میں داخلہ لیا۔

۱۹۶۹ء میں جنرل ایوب کی آمریت کے خلاف وسیع پیمانے پر ہونے والے احتجاج میں بھرپور حصہ لینے کی وجہ سے وہ انٹر کے امتحانات میں شریک نہ ہوسکے۔ لیکن بعدازاں انہوں نے ۱۹۷۲ء میں اچھے نمبروں کے ساتھ انٹر کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد ۱۹۷۴ء میں ڈھاکا شہر میں آئیڈیل کالج سے امتیازی نمبروں کے ساتھ گریجویشن کی۔ ۱۹۷۶ء میں ڈھاکا یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ اور صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ڈھاکا یونیورسٹی کے سلیم اللہ ہال کے ایک رہائشی طالب علم تھے۔ کالج کے دنوں میں پڑھائی میں نمایاں ہونے کے ساتھ قمر الزماں مباحثوں اور ثقافتی مقابلوں میں بھی نمایاں رہتے تھے۔

اسلامی تحریکِ طلبہ میں کردار

جب قمر الزماں نویں جماعت کے طالب علم تھے، اس وقت قاضی فضل الرحمان کی دعوت پر اُن کا رابطہ اسلامی تحریک سے استوار ہوا۔ قاضی فضل الرحمن مرحوم جماعت اسلامی کی رکن قومی اسمبلی راشدہ خاتون کے والد محترم تھے۔ اس کے بعد انہوں نے طلبہ کی مشہور اسلامی تحریک ’’اسلامی چھاترا شنگھو‘‘ (اسلامی جمعیت طلبہ) میں شمولیت اختیار کرلی۔

ایک طویل عرصہ دل و جان سے وابستہ رہنے کے بعد، ۱۹۷۲ء میں انہیں طلبہ تحریک کا تنظیمی سیکرٹری بنا دیا گیا۔ وہ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۷ء تک ڈھاکا یونٹ کے صدر کی حیثیت سے اپنی تحریکی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔

۱۹۷۷ء میں نئی طلبہ تنظیم ’’اسلامی چھاترا شِبر‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو وہ اس کے پہلے سیکرٹری جنرل مقرر ہوگئے۔ اپریل ۱۹۷۸ء میں وہ اسلامی چھاترا شبر کے قائم مقام صدر بنے اور ایک ماہ بعد ضمنی انتخاب میں وہ ’’شبر‘‘ کے مرکزی صدر منتخب ہو گئے۔ ۷۹۔۱۹۷۸ء کے سیشن میں وہ دوبارہ شبر کے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۹ء میں ڈھاکا کے نواح میں موچک اسکائوٹ کیمپ میں اسلام سے محبت کرنے والے نوجوانوں کا اجتماع منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں دنیا بھر کی اسلامی طلبہ تحریکوں کے راہنمائوں نے شرکت کی۔ اس اجتماع کے مرکزی منتظم کی حیثیت سے اجتماع کے کامیاب انعقاد کے پیچھے قمرالزماں کا مرکزی کردار تھا۔

صحافتی کیریئر

قمرالزماں صحافت کے طالب علم تھے۔ لہٰذا اُن کا میدانِ صحافت میں قدم رکھنا ایک قدرتی امر تھا۔ ۱۹۸۰ء کے بعد سے انہوں نے عملی صحافت کا آغاز کیا۔ جنوری ۱۹۸۰ء میں وہ انتظامی مدیر کی حیثیت سے بنگلا ماہنامہ ’’ڈھاکا ڈائجسٹ‘‘ سے منسلک ہوئے۔ جنوری ۱۹۸۳ء میں بنگلا ہفتہ وار جریدے ’’سونار بنگلا‘‘ میں بطور مدیر چارج سنبھالا۔ وہ ڈھاکا یونین آف جرنلسٹس کے رکن تھے۔ ۸۶۔۱۹۸۵ء اور ۸۷۔۱۹۸۶ء کے ادوار میں بنگلا دیش فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ایگزیکٹو ممبر بھی رہے۔ وہ نیشنل پریس کلب کے رکن بھی تھے۔

جماعت اسلامی بنگلا دیش میں بطور سیاست دان کردار

محمد قمر الزماں اکتوبر ۱۹۷۹ء میں جماعت اسلامی بنگلادیش سے وابستہ ہوئے۔ اور اسی سال ۱۶؍دسمبر کو بحیثیت رکن حلف اٹھایا۔ ۸۲۔۱۹۸۱ء کے دوران وہ ڈھاکا شہر کی جماعت اسلامی کے جوائنٹ سیکرٹری رہے۔ ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۱ء تک جماعت اسلامی کے مرکزی پبلسٹی (Publicity) سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ۱۹۹۲ء سے اب تک وہ جماعت اسلامی بنگلا دیش کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ۹۰۔۱۹۸۳ء کے دوران جماعت اسلامی کی سیاسی اور رابطہ کمیٹی کے ایک رکن کی حیثیت سے انہوں نے بنگلا دیش میں جمہورت کی بحالی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح ۹۵۔۱۹۹۳ء میں نگراں حکومت کے قیام کی تحریک میں بھی فعال کردار ادا کیا۔

kamaruzzaman-street-rally

بحیثیت فعال سماجی کارکن

محمد قمرالزماں کا ماضی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سماجی کام کا نمایاں ذوق رکھتے تھے۔ انہوں نے قابل ذکر تعداد میں تعلیمی ادارے اور تنظیمیں قائم کیں۔ وہ شیرپور دارالسلام ٹرسٹ کے چیئرمین تھے۔ یہ ٹرسٹ ایک مدرسے، ایک یتیم خانے اور ایک لائبریری کے ساتھ پرائمری سطح کے کئی اسلامی اسکولوں (مکاتب) کا انتظام بھی سنبھالتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بہت سی فلاحی تنظیموں کے سرپرست بھی تھے۔

ایک بین الاقوامی اسلامی شخصیت

محمد قمر الزماں کے عالمی شہرت کی حامل شخصیات سے قریبی روابط تھے۔ وہ دنیا کے کئی ممالک کا دورہ کر چکے تھے۔ انہوں نے سعودی عرب، ایران، نیپال، بھارت، پاکستان، تھائی لینڈ، ہانگ کانگ، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، امریکا، کینیڈا، فرانس، جاپان، ملائیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، انڈونیشیا، اٹلی، جرمنی، ترکی، یمن، برونائی، بحرین اور کویت کے دورے کیے۔ ان ممالک میں اپنے دوروں کے دوران انہوں نے بہت سی بین الاقوامی کانفرنسوں اور ورکشاپس میں شرکت کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ان ممالک میں رہنے والے بنگلا دیشیوں کی مجالس سے بھی خطاب کیا۔ عالمی رہنمائوں اور بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیات سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ ۱۹۷۶ء میں انہوں نے حج کا مقدس فریضہ ادا کیا۔

kamaruzzaman-with-anwar-ibrahim-300x163

متعدد کتابوں کے مصنف

قمرالزماں نے اپنی معروف صحافتی زندگی میں اندرونی اور بیرونی حالات پر بے شمار کالم لکھے۔ سلگتے ہوئے مسائل پر ان کے سحر انگیز مضامین مختلف اخبارات اور رسالوں میں شائع ہوئے۔ ان مضامین کو اپنی قابلِ قدر بصیرت اور سوچ و فکر کی دعوت دیتے انداز کی بدولت قارئین میں پذیرائی ملی۔

انہوں نے متعدد کتابیں تحریر کی ہیں۔ جن میں، ’’جدید زمانے میں اسلامی انقلاب‘‘، ’’عالمی صورتحال اور اسلامی تحریک‘‘، ’’مغرب اور اسلام کا چیلنج‘‘ اور ’’انقلابی راہنما۔پروفیسر غلام اعظم‘‘ قابل ذکر ہیں۔

انہوں نے معروف اسلامی مفکر خرم مرادؒ کی کتاب ’’قرآن کا راستہ‘‘ بھی بنگالی زبان میں ترجمہ کی۔

ذاتی زندگی

محمد قمر الزماں کی شادی ۱۹۷۷ء میں بیگم نورونہار کے ساتھ انجام پائی۔ اُن کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ان کے تمام بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور متعلقہ شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

محمد قمرالزماں مطالعہ کرنے میں ہمیشہ خوشی محسوس کرتے تھے۔ سیاست اور تنظیمی کاموں میں بے حد مصروف رہنے کے باوجود وہ مطالعہ کے لیے کماحقہٗ وقت نکال لیتے تھے۔ ان کی پسندیدہ شخصیت رسولِ اکرم حضرت محمدﷺ تھی۔

۱۱؍اور ۱۲؍اپریل ۲۰۱۵ء کی درمیانی شب بنگلا دیش کے مقامی وقت ۱۰ بجے (پاکستان میں گیارہ بجے) مردِ درویش، عالم، سیاسی راہنما اور مجاہد کو ڈھاکا سینٹرل جیل میں ۱۹۷۱ء میں اُس وقت کے پاکستان پر بھارتی حملہ اور قبضہ کی مخالفت کے جرم میں بھارت نواز بنگلا دیشی حکومت نے تختہ دار پر لٹکا دیا۔ واضح رہے ۱۹۷۱ء میں محمد قمرالزماں صرف ۱۹؍سال کے ایک لڑکے تھے۔

(مترجم: طاہرہ فردوس)

“Mohammad Kamaruzzaman – A biography”. (“progressbangladesh.com”. April 6, 2015)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*