۱۰؍اگست ۲۰۱۴ء کو صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں وزیراعظم طیب اردوان، ۵۲ فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرتے ہوئے، ترکی کے صدر منتخب ہوگئے۔
طیب اردوان کی فتح کی بنیادی اور اہم وجہ اردوان کی طرف سے انتہائی توانا اور جارحانہ انتخابی مہم ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ انتخابات کے پہلے مرحلے کے متعلق قیاس آرائیوں کے باوجود کسی بھی چیز کو ’’اتفاق‘‘ پر چھوڑ دیا جائے۔ انہوں نے میڈیا کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا اور ان پراپنی انتخابی مہم کے لیے سرکاری مشینری کے استعمال کے الزامات کے باعث تنقید بھی کی گئی۔ انہوں نے غزہ میں اسرائیلی حملے کی مخالفت سے لے کر دیگر مقامی مسائل تک میڈیا کو نہایت عقل مندی سے استعمال کیا۔
اردوان کی کامیابی کی ایک اور وجہ، ان کے مرکزی حریف اکلیم الدین احسان اوغلو کی طرف سے انتخابی مہم میں جوش و خروش کی کمی ہے جنہیں ترکی کی مرکزی مخالف جماعتوں ریپبلکن پیپلز پارٹی اور نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے محض ۳۹ فیصد ووٹ حاصل کیے۔
ووٹوں کی جو تعداد اردوان نے مقامی انتخابات میں حاصل کی، تقریباً ۲۰ ملین ووٹوں کی شرح بھی صدارتی انتخابات میں ویسی ہی رہی جبکہ مخالف جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کی شرح میں ایک چوتھائی کمی واقع ہوگئی۔
مخالف امیدوار کی انتخابی مہم میں جوش و خروش کی کمی کے باعث ووٹروں میں بھی لاتعلقی دیکھنے میں آئی اور انہوں نے پولنگ اسٹیشنوں کا رُخ نہیں کیا، حالانکہ دونوں مخالف امیدواروں نے ووٹروں کو بارہا ووٹ ڈالنے کی اہمیت سے آگاہ کیا تھا، اس لیے ووٹ ڈالنے کی کم شرح، اردوان کے حق میں ثابت ہوئی۔
یہ صورتحال، تیسرے امیدوار صلاح الدین ڈیمرتس کے لحاظ سے یکساں ثابت نہیں ہوئی۔ صلاح الدین، جو کرد ہیں اور انہوں نے ترکی کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور ان کے ووٹر، بھاگم بھاگ پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچے۔ صلاح الدین بائیں بازو کے ترکوں کی حمایت کے باوجود کامیابی نہ حاصل کرسکے۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ انہوں نے ترکی میں کردوں کا مسئلہ مسکراتے چہرے کے ساتھ پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ صلاح الدین، ترکی کی سیاست کے نئے ابھرتے ہوئے ستارے ہیں جبکہ اس وقت اردوان کا سیاسی ستارہ عروج پر ہے۔
اردوان نے اپنی خواہش کے مطابق سب کچھ حاصل کرلیا۔ وہ تمام انتظامی اختیارات اپنے ہاتھ میں مرتکز کرنا چاہتے تھے اور اب انقرہ کے صدارتی محل میں براجمان ہونے کے بعد ان کے پاس موقع ہے کہ وہ یہ سب کچھ کرسکیں۔
صدارتی عہدے کے لیے اردوان کی حمایت، ۲۰۱۱ء کے عام انتخابات میں، ان کی پارٹی سے کہیں زیادہ حمایت تھی جو تقریباً ۵۰ فیصد تھی۔ اس لیے وہ آئین کی شق ۱۰۱ کے باوجود طمانیت محسوس کریں گے جس کے مطابق جماعت اور پارلیمان میں صدر کی رکنیت اُس وقت ازخود ختم ہوجاتی ہے جب سرکاری طور پر اس کی فتح کا اعلان کیا جاتا ہے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ اب ترکی میں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہوچکا ہے جسے اردوان ’’نیا ترکی‘‘ کہہ کر پکار سکتے ہیں۔ اس موقع پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ترکی کے سیاسی نظام کو بدلنے کے باعث متعدد سیاسی اثرات سامنے آسکتے ہیں کیونکہ ترکی کا سیاسی نظام، پارلیمانی سے مضبوط صدارتی نظام میں تبدیل ہو گیا۔ مزید یہ کہ ترکی کی سیاست میں اردوان کے اس نئے کردار کا عکس، ترکی کی خارجہ پالیسی میں بھی نظر آئے گا۔ روس کے ولادیمیر پوٹن اور ایران کے حسن روحانی کے بعد اردوان، جرمنی کی انجیلا مرکل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یورپ کی علاقائی جغرافیائی سیاست میں ایک اہم کردار کے طور پر سامنے آئیں گے۔
اردوان اپنے اس نئے سیاسی کردار کو ایک نیا ترکی تعمیر کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں اور اس کے لیے انہیں ۲۷؍اگست کا بھی انتظار نہیں کرنا ہوگا، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ فاتح کو سب اقدامات مقبول حمایت کے ساتھ انجام دینے چاہئیں۔
(بشکریہ: ’’حریت ڈیلی نیوز‘‘ ترکی۔ ۱۱؍اگست ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply