امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ گلوبلائزیشن کے برفانی دارالحکومت ڈیووس (سوئٹزر لینڈ) تک سفر کرنے والی کورٹ نے ایک پیغام ضرور دیا کہ ’’امریکا فرسٹ‘‘ کا لازمی مفہوم صرف امریکا یا تنہا امریکا ہرگز نہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ڈیووس میں دوستی، تعاون اور اشتراکِ عمل کا جو پیغام دیا گیا اس کا اثر ایک آدھ دن سے زیادہ نہیں رہا۔ یہ وہی ثابت ہوا جس کے لیے امریکی صدر ہمیشہ میڈیا کو قصور وار ٹھہراتے ہیں یعنی فیک نیوز۔
ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے جو بنیادی اور مرکزی پیغام دیا، اس کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہونی نہیں چاہیے۔ یہ کہ امریکا سے لین دین کی ایک قیمت ہے اور یہ قیمت خود امریکا طے کرے گا۔ اس بات کی پروا کون کرتا ہے کہ اس طور مقرر کی جانے والی قیمت سے امریکا دوستوں اور دشمنوں سے یکساں طور پر تصادم کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے مونرو ڈاکٹرائن کا ذکر کیا ہے۔ اُن کا استدلال ہے کہ یہ ڈاکٹرائن آج بھی اسی طور قابلِ اطلاق ہے، جس طور دو صدیوں پہلے تھی۔ یہ بیان جنوبی اور وسطی امریکا سے ان کے ساتھیوں کی میٹنگوں کے موقع پر سامنے آیا۔ ٹلرسن بہت آسانی سے کہہ سکتے تھے کہ وہ واشنگٹن کے پچھواڑے یا امریکا کی نوآبادیات کا دورہ کرنے والے ہیں۔ جو کچھ انہوں نے کہا ہے، وہ دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ چین کو لاطینی امریکا کے ممالک سے معاملات کا کوئی حق نہیں۔
حقیقی دنیا میں اِسی چین نے سانتیاگو (چلی) میں CELAC (کمیونٹی آف لیٹن امریکن اینڈ کیریبین اسٹیٹس) کے ارکان کے ساتھ ایک کامیاب سربراہ اجلاس منعقد کیا۔ کسی بھی طرح کے گرینڈ ڈیزائن کا دعویٰ نہ کرتے ہوئے چین نے جنوبی امریکا اور کیریبین کے ممالک کو ون بیلٹ ون روڈ کی پیشکش کی۔ چین اشیا کی درآمد بڑھانے، تیار شدہ اشیا کی برآمدات میں اضافے اور سرمایہ کاری کا گراف بلند کرنے کے لیے تیار ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ماحول کو محفوظ رکھنے سے متعلق اقدامات میں تعاون سے بھی گریز نہیں کر رہا۔ اس نے حال ہی میں چلی سے آزاد تجارت کے معاہدے کو نئی شکل دی ہے۔
امریکا کے لیے یہ سب کچھ بہت حد تک بدحواس کرنے والا ہے۔ صدر ٹرمپ کے تحت واشنگٹن خاصا الجھا ہوا ہے۔ اپنے دو قریب ترین ہمسایوں کے ساتھ وہ تجارت کے معاملات میں بہتر کارکردگی کا حامل نہیں رہا۔ یہ دونوں اس کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں۔ ٹرمپ کی ٹیم نارتھ امریکا فری ٹریڈ ایگریمنٹ (نیفٹا) کی شرائط تبدیل کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ معاہدے کی میعاد پانچ سال رکھی جائے اور اگر کوئی فریق اسے طول دینے کے لیے تیار نہ ہو تو معاہدہ خود بخود ختم ہوجائے۔ ساتھ ہی ساتھ خطے کے ممالک میں سرمایہ کاری کو زیادہ سے زیادہ شفاف بنانے پر توجہ دی جائے۔
یہ سب کچھ گویا بہت کم تھا اس لیے ٹرمپ انتظامیہ نے شمالی امریکا میں چینی مفادات کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی غرض سے واشنگٹن مشینز اور سولر پینلز کی درآمد پر بھی پابندی عائد کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے میکسیکو اور کیریبین ممالک پر جرمانے بھی عائد کیے گئے جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کے متعلقہ ادارے نے امریکی صنعت کو بچانے سے متعلق اقدامات کے حوالے سے برآمدات پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی۔
اپنے ’’لامحدود وژن‘‘ کے زیر اثر ٹرمپ نے کچھ اور ہی فیصلہ کیا۔ اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ چین اور CELA کی میٹنگ کے بعد چلی کے وزیر خارجہ نے کہا ’’یہ میٹنگ واضح طور پر پروٹیکشن ازم اور یکطرفہ اقدامات کی ذہنیت کے خلاف ہے‘‘۔
بات ایشیا کی ہو تو معاملات مزید خرابی کی نذر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہاں امریکی ٹیم ایک ایسے گینگ کی طرح دکھائی دیتی ہے، جو ناک کی سیدھ میں فائر کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو۔ ہر بار اپنے پیروں ہی پر فائر کردیا جاتا ہے۔
ٹرمپ نے منصب سنبھالنے کے تین دن بعد ہی ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ سے الگ ہونے کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں معاملات مزید خراب ہوتے چلے گئے۔ امریکا کے صدر کی حیثیت سے ٹرمپ نے ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ کو امریکا سے واضح ’’زیادتی‘‘ قرار دیا۔ مگر خیر، اس کے نتیجے میں تجارت کے محاذ پر امریکا کے لیے کچھ زیادہ امکانات پیدا نہیں ہوئے۔ امریکا میں تجارتی معاملات کے سیاہ و سفید پر دسترس رکھنے والے بیدار نہ ہوئے۔ اس کے بجائے یہ اقدام جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے اثرات کا مقابلہ کرنے اور توازن پیدا کرنے کے حوالے سے اچھی کوشش ثابت ہوا۔
ویتنام اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ ملک ریاستی ملکیت والے صنعتی اداروں اور غیر ریاستی مزدور انجمنوں کے خلاف چند ایک پابندیاں قبول کرنے کو تیار تھا۔ یہ عزم لبرل معیشت کے اصولوں کو اپنانے سے کہیں بڑھ کر شمال میں بڑے پڑوسی سے اپنے آپ کو دور کرنے کے اقدام کے طور پر زیادہ دیکھا گیا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ سے امریکا کا نکل جانا اس معاہدے کے لیے موت ہی کی ایک شکل ہوگی۔ یہ اندازہ بالکل غلط ثابت ہوا۔ جاپان اور آسٹریلیا نے مل کر ایسی کوششیں کی ہیں، جن کی مدد سے اس وسیع البنیاد معاہدے کو زندہ رکھنا ممکن ہوسکا ہے۔ امریکا کے بغیر بھی یہ معاہدہ بہت اچھی طرح کام کر رہا ہے۔
نیا ٹی پی پی تھوڑا سا ترمیم شدہ ہے۔ زرعی اثاثوں سے متعلق چند ایک اقدامات کیے گئے ہیں، جیسا کہ امریکا کا مطالبہ تھا۔ نئے ٹی پی پی کے تحت جاپان کو اپنی تیار شدہ صنعتی اشیا اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو اپنی زرعی اشیا کی فروخت کے حوالے سے امریکا پر واضح برتری حاصل ہوگی۔
امریکا نے اپنی صنعتوں کو بچانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، ان سے صرف چین متاثر نہیں ہوگا بلکہ اتحادیوں پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سولر پینلز کی فروخت روکنے کے حوالے سے امریکا نے جو اقدامات کیے ہیں، وہ صرف چین کو ذہن نشین رکھتے ہوئے یقینی بنائے گئے ہیں۔ چین کے سولر پینلز پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی عائد کیے جانے سے امریکا کے لیے چین کی متعلقہ درآمدات پانچ برس میں ۵۹ فیصد سے گر کر ۱۱ فیصد پر آگئیں۔
سولر پینلز اور دیگر اشیا کی برآمد روکنے سے متعلق اقدامات کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ملائیشیا، جنوبی کوریا، ویتنام اور تھائی لینڈ ہیں۔ ویتنام اور تھائی لینڈ گھریلو استعمال کی واشنگ مشین کے حوالے سے بنیادی ہدف ہیں۔ ان ممالک کی بنائی ہوئی واشنگ مشینز کی برآمد شدید متاثر ہوئی ہیں۔ جنوبی کوریا میں صنعت کار اب کھل کر کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ امریکیوں نے کیا ہے اس کے باوجود وہ اگر دوست ہیں تو پھر دشمنوں کی ضرورت کسے ہے؟
ایشیا میں امریکا نے چین کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے جو اقدامات کیے ہیں، وہ اب تک خاصے مضحکہ خیز ثابت ہوئے ہیں اور ظاہر ہے، ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ اب واشنگٹن میں یورپی یورنین کو ایک ایسے پارٹنر کے طور پر دیکھا جائے گا، جو چین کے بڑھتے ہوئے عروج کو دیکھتے ہوئے کھیل کے اصول بہتر انداز سے طے کرنے پر خاطر خواہ توجہ دے گا۔
یورپ چاہتا تھا کہ ٹرانس اٹلانٹک پارٹنر شپ کو بہتر شکل دی جائے، اشتراک عمل کے لیے زیادہ گنجائش پیدا کی جائے، مگر ٹرمپ انتظامیہ نے اسے اپنے ایجنڈے پر رکھا ہی نہیں۔
امریکی وزیر تجارت ولبر راس نے ڈیووس میں اس حوالے سے بات چیت دوبارہ شروع کیے جانے کا امکان ظاہر کیا۔ مگر خیر، ایسا لگتا ہے کہ اس حوالے سے معاملات زیادہ خوش اسلوبی سے آگے نہ بڑھ سکیں گے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے ’’امریکا فرسٹ‘‘ کی پالیسی اپناتے ہوئے امریکیوں پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی مصنوعات کی خریداری کو ترجیح دیں۔
ایک بنیادی مسئلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی چھوٹی سوچ کا ہے۔ وہ کسی بھی معاملے میں بڑا سوچنے کے عادی ہیں نہ اہل۔ برطانیہ کے آئی ٹی وی کو ان کے انٹرویو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عالمگیر سطح کے معاملات کو بھی وہ وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا ’’میں بتاؤں کہ امریکا کی نمائندگی کوئی آسان کام نہیں۔ ہم اپنی مصنوعات کو عالمی منڈی میں آسانی سے داخل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔ چین اور دیگر ممالک اپنی مصنوعات ہمارے ہاں بھیجتے ہیں تو ان پر بہت کم ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ درست نہیں۔ یورپی یونین سے معاملات طے کرنا بھی میرے لیے آسان نہیں رہا۔ تجارت کے نقطہ نظر سے معاملات مزید خرابی کی طرف جاسکتے ہیں۔ تجارت کے معاملے میں یورپی یونین نے امریکا سے اچھا سلوک روا نہیں رکھا۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ بات خود یورپی یونین کے حق میں بھی نہیں جائے گی‘‘۔
اس تجزیے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر کی ذہنی سطح کیا ہے۔ بڑھک مارنا اور بھاری بھرکم الفاظ استعمال کرنا اپنی جگہ، سوال بصیرت کا ہے جو دکھائی ہی نہیں دیتی۔ امریکا بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کے بجائے اب بھی اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی کرنے کی پالیسی پر کاربند رہنا چاہتا ہے۔ ایسا کرنا زیادہ کارگر ثابت نہ ہوگا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“America First — Or Against All?”.(“The Globalist”. February 13, 2018)
Leave a Reply