دہشت گردی کو سامنے آکر قابو کرنا ہوگا: کیمرون منٹر

پاکستان میں امریکا کے نئے سفیر کیمرون منٹر کیریئر ڈپلومیٹ ہیں۔ سربیا میں سفیر رہ چکے ہیں۔ عراق، چیک جمہوریہ اور پولینڈ میں بھی اہم سفارتی مناصب پر فائز رہے ہیں۔ کیمرون منٹر سے نیوز ویک پاکستان کے فرحان بخاری اور فصیح احمد نے جو گفتگو کی اس کے اقتباسات ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔


٭ کچھ عرصہ قبل پاکستان اور امریکا کے درمیان اسٹریٹجک مذاکرات ہوئے تھے۔ ان مذاکرات سے بہت سی توقعات بھی تھیں اور خیال کیا جارہا تھا کہ ان سے بہت کچھ حاصل ہوگا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں کسی بہتری کی توقع رکھنے والوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ آپ اس معاملے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ کیا یہ امر آپ کے لیے پریشانی کا باعث ہے؟

کیمرون منٹر: ہمیں کسی بھی معاملے سے آنکھیں چرانے کے بجائے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا چاہیے۔ بات یہ ہے کہ دو طرفہ تعلقات کو تمام حوالوں سے پرکھا اور برتا جاتا ہے۔ پاکستان کی ضروریات صرف سیکورٹی تک محدود نہیں۔ ملک بھر میں مختلف مسائل ہیں جن کے باعث عوام کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ پاکستان کو توانائی اور صحت عامہ کی سہولتیں درکار ہیں۔ زرعی شعبے کو بھی غیر معمولی توجہ درکار ہے۔ اگر امریکا پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے تو اس کے اثرات دکھائی بھی دینے چاہئیں۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے توانائی، صحت عامہ، زرعی شعبے میں تعاون اور دیگر بہت سے معاملات میں پیش رفت کو غیر متوقع قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان جو کچھ چاہتا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے امریکا اقدامات کر رہا ہے۔ میرے خیال میں مسئلہ صرف یہ ہے کہ جو کچھ بھی کیا جارہا ہے اس کے اثرات دکھائی دینے چاہئیں۔ پاکستان کے عوام کو نظر آنا چاہیے کہ ان کے لیے کچھ کیا جارہا ہے۔ مختلف منصوبوں کے لیے امریکا نے فنڈ تو جاری کیے ہیں مگر شاید اب تک پاکستانی عوام کو ہم بہتر طور پر سمجھا نہیں پائے ہیں کہ پاکستانی فورسز کو خصوصی تربیت دینا کیوں ضروری ہے۔ ہم اب تک پاکستانیوں پر واضح نہیں کرسکے ہیں کہ امریکا جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے ازالے کی کوشش ہے اور یہ کہ پاک امریکا رفاقت یا شراکت کو طویل مدت تک برقرار رہنا ہے۔

٭ جس نوعیت کے شکوک ظاہر کیے جارہے ہیں کیا انہیں رفع کرنے کے لیے وہ پیغام کافی ہوگا جو دیا جارہا ہے؟

کیمرون منٹر: ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس سے لوگوں کو آگاہ کرنا لازم ہے۔ زرعی شعبے میں ہماری کاوشیں لوگوں کو ٹیکنالوجی کے بہتر استعمال کی طرف لے جائیں تو کچھ بات بنے۔ پاکستان میں زرعی شعبے کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ کنویں اور ڈیم اگر زرعی معاشرے کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں تو عام آدمی کو ان سے استفادے کا موقع بھی ملنا چاہیے۔ میں اب تک جن لوگوں سے ملا ہوں ان کی باتوں سے اندازہ لگا سکتا ہوں کہ پاکستانی عوام امریکا کے معاملے میں خاصے بیزار ہیں اور بہت سے معاملات میں تو مخاصمت بھی پائی جاتی ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں نے امریکا سے غیر معمولی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔

٭ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے اوباما کے دور میں بڑھے ہیں۔ ان حملوں سے جو جانی نقصان ہوتا ہے اس پر عوام خاصے بد دل اور مشتعل ہیں۔ آپ ان حملوں کو کس طرح دیکھتے ہیں اور کیا ان حملوں کا کنٹرول پاکستان کی فوج کو دینے کی صورت میں کسی بہتری کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟

کیمرون منٹر: حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ بہت توجہ طلب ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ پاکستانی فورسز کے ہزاروں جوانوں نے جان سے ہاتھ دھوئے ہیں۔ ہزاروں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ پاکستان اور امریکا کی بقاء کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جاری رہنا ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنی تمام صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا ہوگا، انہیں بروئے کار لانا ہوگا۔ پاکستان کی قیادت بھی اس بات کو سمجھتی ہے کہ یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہر شخص اس چیلنج سے نمٹنے کی بساط بھر کوشش کر رہا ہے۔ اس امر میں تو اختلاف کیا جاسکتا ہے کہ یہ جنگ کس طور لڑی جارہی ہے مگر خیر اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس وقت تک جاری رکھی جانی چاہیے جب تک یہ خطرہ مستقل طور پر ختم نہیں کردیا جاتا۔ میں دفاعی امور کا ماہر تو نہیں کہ یہ بتا سکوں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے مگر خیر، ہم سب کا مقصد ایک ہے۔ یعنی یہ کہ دہشت گردوں کا خاتمہ کردیا جائے۔ اس کے لیے سب کو اپنا اپنا کردار پورے خلوص اور عمدگی سے ادا کرنا ہے۔

٭ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان اس مسئلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے، ہم اس مسئلے کو حل کرنے کے نزدیک پہنچ چکے ہیں یا نہیں؟

کیمرون منٹر: ہم نے اس مسئلے پر خاصی تفصیلی بات چیت کی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ہم کہاں تک جاسکتے ہیں۔ فریقین چونکہ مل کر کام کر رہے ہیں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار بھی لا رہے ہیں اس لیے پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس کا اثر دہشت گردوں پر مرتب بھی ہوا ہے۔ ایک طرف تو ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دہشت گردوں کا صفایا ہو اور دوسری طرف افغانستان اور پاکستان کی سلامتی بھی یقینی بنانی ہے تاکہ خطے میں امن اور استحکام پیدا ہو۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ افغانستان میں مفاہمت کے لیے جو بات چیت ہو رہی ہے اس میں پاکستان کا بھی اہم کردار ہے۔

٭ ایسا سننے میں آ رہا تھا کہ سوات سے گرفتار کیے جانے والے عسکریت پسندوں کو سرسری سماعت کے بعد سزائے موت دینے والے پاک فوج کے ایک یونٹ کے لیے امداد روکنے کے سلسلے میں امریکی کانگریس میں لیہی ترمیم پیش کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ کیا اس معاملے پر اسٹریٹجک مذاکرات میں کچھ بات ہوئی؟

کیمرون منٹر: ہم نے اس حوالے سے بھی بات کی۔ ایک بات واضح ہے اور وہ بات یہ ہے کہ ہم دنیا بھر میں انسانی حقوق کا احترام چاہتے ہیں۔ جب کبھی ہمارے اہداف کے مطابق کام نہیں ہو پاتا، ہم ملبہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کا لیکچر دینے پر ہمارے بارے میں کیا سوچا جاتا ہے جب خود ہمارے آپریشنز میں کچھ کمی رہ جائے۔ ہم پوری تفتیش کرتے ہیں کہ اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو کیوں ہوئی ہے اور اس کا تدارک کیا ہے۔ پاکستانی حکام سے بھی ہم نے کہا ہے کہ اگر آپریشن کے دوران زیادتی ہوئی ہے تو اس کی تحقیقات کی جائیں۔ سینیٹر لیہی کا خیال ہے کہ اس مرحلے پر ہم ان کی تجویز کردہ ترمیم سے پوری طرح متفق اور ہم آہنگ ہیں۔

٭ پاکستان میں ایک بار پھر فوج بحیثیت مجموعی سیاست دانوں پر غالب آتی دکھائی دے رہی ہے؟ یہ تبدیلی پاک امریکا تعلقات پر کس طرح اثر انداز ہوسکتی ہے؟

کیمرون منٹر: اسٹریٹجک مفادات کا عسکری پہلو بھی ہوتا ہے اور سویلین پہلو بھی۔ پاکستان میں آئینی ڈھانچا موجود ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ سویلین ڈھانچا سلامت رہے تاکہ ملک کا نظم و نسق عمدگی سے چلانا ممکن ہو۔ ہم پاکستان کے نظام کے تحت تفویض ہونے والے کرداروں کا احترام کرتے ہیں اور کسی بھی معاملے میں فریق نہیں بنتے۔ سویلین اور فوجی اسیٹبلشمنٹ کے لیے ہمارا تعاون متعین فریم ورک کی حدود میں ہوتا ہے۔

٭ آپ پاکستان کو بھارت کے معاملے میں سراسیمگی سے دور رہنے اور افغانستان سے ملحق سرحدی علاقے پر توجہ مرکوز رکھنے پر کس طور آمادہ کر پاتے ہیں؟

کیمرون منٹر: پاکستان کی سیکورٹی کے لیے جو کچھ ضروری ہے اس کا ہمیں احساس ہے۔ سالانہ دو ارب ڈالر کی امداد کے ذریعے ہم پاکستان کو دفاع کے حوالے سے مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ جو کچھ پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے ضروری ہے اسے دیا جائے۔ ہم اس سلسلے میں جامع تبادلہ خیال بھی کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں استحکام امریکی مفاد میں ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے جو کچھ بھی ضروری ہو ہم کریں گے۔

٭ کیا ایف سولہ طیاروں کی ایک اور ڈیل جلد ممکن ہے؟

کیمرون منٹر: مجھے ایسی کسی ڈیل کا علم نہیں مگر ہاں پاکستان کو فریگیٹس، لڑاکا طیاروں یا کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو ہم دینے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علاقائی استحکام سے اس ضرورت کا کس حد تک تعلق ہے۔

٭ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ امریکا کی پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی بلیک واٹر کے ایجنٹس بڑی تعداد میں ملک کے طول و عرض میں سرگرم ہیں اور حکومت کو غیر موثر کرنا چاہتے ہیں۔ اس تاثر کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

کیمرون منٹر: میرے خیال یہ سوچ حماقت پر مبنی ہے۔

(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘ پاکستان۔ ۸ نومبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*