صدام کو جس دن پھانسی دی گئی اس دن کے ’’انڈی پینڈینٹ‘‘ اخبار میں سرخی لگائی گئی تھی ’’صدام تختہ دار پر‘‘۔ یہ بالکل مناسب اظہار تھا۔ کوئی اور شخص صدام سے زیادہ اس تختہ پر پہنچنے کا حقدار نہیں تھا۔ کیونکہ پھانسی کا پھندہ اپنے گلے میں ڈالے ہوئے بغداد کا وحشی‘ دریائے فرات کا ہٹلر جس نے انگنت معصوم عراقیوں کو کیمیائی اسلحہ کے ذریعہ جو اس نے اپنے دشمنوں کے لیے بنائے تھے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا‘ اخبار نے یہ بھی لکھا تھاکہ پھانسی کا یہ دن عراقیوں کے لیے مسرت کا یوم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم دنیا اس بات کو فراموش کرسکے گی کہ صدام حسین کے پروانۂ موت پر کسی اور نے نہیں بلکہ خود عراقی حکومت نے دستخط کیے تھے‘ لیکن یہ دستخط امریکا کی طرف سے کیے گئے اور یہ سزا عید الاضحیٰ کے موقع پر دی گئی تھی۔ جس کو عام طور پر عالمِ عرب اور عالم اسلام میں عفوودرگزر کا دن کہا جاتا ہے۔ تاریخ یہ بات ریکارڈ کرے گی کہ عرب اور دنیا کے سارے مسلمان بلکہ مغربی ممالک میں رہنے والے لاکھوں افراد اس پھانسی کی سزا کے بعد یہ سوال کریں گے کہ کیوں اسی دن سزائے موت دی گئی۔شاید مغربی میڈیا یہ سوال نہیں کرے گاکیونکہ ان کا عقیدہ کچھ اور ہے۔ ان مغربی ممالک کے صدور ووزرائے اعظم کی رائے صدام حسین کے بارے میں مختلف انداز کی تھی۔ ٹونی بلیئر‘ صدام حسین نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنے دشمنوں کو زہریلی گیس سے ہلاک نہیں کرتے۔ جارج بش‘ صدام حسین نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے ایران اور عراق پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ صرف عراق پر حملہ کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ امریکی حملہ میں لاکھوں عراقی شہری شہید ہوئے اور ہزاروں امریکی‘ برطانوی فوجی فوت ہوگئے۔ کیونکہ بش۔ بلیئر اور اسپین‘ اٹلی‘ آسٹریلیا کے وزیراعظم نے ۲۰۰۳ء میں عراق کے خلاف امریکا کی جنگ میں اس لیے شرکت کی تھی کہ انہیں جھوٹی اطلاعات فراہم کی گئی تھیں۔۲۰۰۱ء کے دوران کئے گئے انسانیت سوز جرائم کے اثرات آج بھی دیکھے جاتے ہیں۔ ہم نے ظالمانہ انداز میں معصوم افراد کو ہلاک کردیا۔ ابوغریب جیل میں جو ظلم صدام حسین نے قیدیوں پر ڈھائے تھے ان سے بھی زیادہ شرمناک مظالم عراق پر قبضہ کے بعد مغربی ممالک نے ڈھائے ہیں۔ اس کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا ہمارے ان بھیانک جرائم کو فراموش کردے گی کیونکہ ہم (مغربی ممالک) اس ڈکیٹر کو ختم کرچکے ہیں جس کو خود ہم نے پیدا کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ۱۹۸۰ء میں کس نے صدام حسین کو ایران پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تھی۔ تعجب تو یہ ہے کہ یہی جنگ صدام حسین کا سب سے بڑا جرم سمجھا جارہا ہے کیونکہ اس جنگ میں آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے سوال یہ بھی ہے کہ کس نے صدام حسین کو کیمیائی اسلحہ بنانے کے لیے ضروری چیزیں فراہم کی تھیں جن کو استعمال کرکے صدام حسین نے ایرانیوں اور کرد قبائل کو تباہ کیا تھا ۔ یہ سب ہم نے کیا تھا۔ آج یہ بات تعجب خیز نہیں ہے کہ امریکی حکومت جس نے صدام حسین کے خلاف مقدمہ کی باگ دوڑ سنبھالی تھی۔ اس حکومت نے صدام حسین کے خلاف عائد کردہ الزامات میں ان کے بے حد افسوسناک جرائم کو شمار نہیں کیا۔ ہم نے صدام حسین کے ہاتھوں لاکھوں کی تعداد میں مارے جانے والے ایرانیوں کے قتل کا الزام‘ الزامات کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔ شاید اس کی یہ وجہ ہے کہ ایران سے بھی ہمارا اختلاف ہے۔ یہ خدشہ بھی لاحق تھا کہ ایران کے خلاف جرائم کو شمار کرکے کہیں ہم خود اپنی پول نہ کھول دیں۔ خود ہم نے ۲۰۰۳ء میں عراق پر حملہ کے دوران اپنے یورینم شیلز اور بنکر بسٹرس بم استعمال کیے۔ ہم نے فاسفورس بم کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا۔ جس وحشیانہ انداز میں حملہ کے بعد فلوجہ اورنجف کا محاصرہ کیا گیا تھا اس نے سارا علاقہ کو جہنم بنادیا تھا۔ بغداد پر فتح کے بعد عراقی عوام کو کئی مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ ان تمام جرائم کے لیے کس کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی سوال ہے کہ کیسے ہم امریکی اپنے ان گناہوں اور جرائم کا کفارہ ادا کرسکتے ہیں۔ شاید عہدوں سے ہٹ جانے کے بعد بلیئر اور بش سوانح لکھیں گے‘ تب انہیں یہ تمام باتیں یاد آئیں گی۔ سزائے موت سے چند گھنٹوں پہلے صدام حسین کے افرادِ خاندان‘ ان کی پہلی بیوی ساجدہ اور بیٹی اور دیگر کچھ رشتہ دار ایسے تھے جن کی یہ امید ختم ہوگئی تھی کہ صدام حسین کو بخش دیا جائے گا۔ ان کی اہلیہ نے کہا تھا کہ جو کچھ بھی ہم ان کو بچانے کے لیے کرسکتے تھے کرچکے۔ اب ہم نے حالات پر ہر بات کو چھوڑ دیا ہے۔ لیکن صدام حسین کو یہ معلوم تھا اس لیے انہوں نے پہلے ہی اپنی شہادت کا اعلان کردیا تھا۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ وہ آج بھی عراق کے صدر ہیں عراق کے لیے اپنی جان قربان کرسکتے ہیں۔ ہر اس شخص کو کسی نہ کسی فیصلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس پر الزامات ہوتے ہیں اور بالآخر اس کو موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رحم کی درخواست بھی کی جاسکتی ہے یا پھر پُر وقار طور پر خو دکو موت کے حوالے بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ تمام باتیں اپنے مقدمہ کی آخری سماعت میں صدام حسین نے کہی تھیں۔ ان کے چہرے پر جو مسکراہٹ آخری سماعت کے دن دیکھی گئی اس سے ظاہر ہورہا تھا کہ صدام حسین تختہ دار پر چڑھنے اور اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوچکے تھے۔ راقم الحروف نے ان تمام برسوں میں صدام حسین کے جرائم کی تفصیل حاصل کی تھی۔ اس سلسلہ میں حلب کے ان کرد افراد سے بھی بات چیت ہوئی جو کیمیائی حملہ کے باوجود بچ گئے تھے۔ اُن شیعہ لوگوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جنہوں نے اس ڈکیٹر کے خلاف آواز اٹھائی تھی لیکن یہ عمل بھی شیعہ حضرات نے امریکا کے کہنے پر ۱۹۹۱ء میں کیا تھا۔ اُن کی تعداد بھی کئی ہزار تھی جن کو صدام حسین کے جلادوں نے ان کی بیویوں کے ساتھ پھانسی پر لٹکادیا تھا۔ راقم الحروف نے ابوغریب کے اس کمرے کا بھی معائنہ کیا جہاں پھانسی کی سزا دی جاتی تھی۔ اسی جیل میں صدام حسین اپنے مخالفین کو ایذا پہنچایا کرتے تھے۔ میں نے وہ منظر بھی دیکھا جب عراقی اجتماعی قبروں سے اپنے ہزاروں رشتہ داروں کی نعشیں کھود کھود کر نکالتے تھے۔ ایک تو نعش ایسی بھی تھی جس پر طبی شناخت کا نمبر لکھا ہوا تھا۔ یہ وہ شخص تھا جس کو ہاسپٹل سے نکال کر موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ ڈونالڈرمسفلیڈ کی طرح مجھے بھی صدام حسین سے مصافحہ کا موقع ملا تھا۔ ان کا ہاتھ حد درجہ نرم و گرم تھے۔ انہوں نے اپنے آخری ایام رومانوی ناول لکھنے میں گزارے۔ راقم الحروف کے ایک ساتھی ٹام فرائیڈمین‘ نیویارک ٹائمز کے لیے کالم لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی حملے سے کچھ دن قبل صدام حسین پر تبصرہ لکھا تھا۔ فرائیڈ مین نے صدام حسین کی یہ عجب و غریب تعریف کی تھی کہ اس شخص میں کئی ڈکٹیروں کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بریریت میں بھی ایک ناقابل تصور غیر انسانی فطرت دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جہاں تک دنیا کا سوال ہے وہ صدام حسین کو اس نقطہ نظر سے دیکھتی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply