مغربی معاشرے کی جرم پروری اور مجرم نوازی کی ایک تصویر جو۱۹۸۹ء میں جناب جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی صاحب اپنے بیرون ملک دورے سے واپسی پر ساتھ لائے۔ یہ تصویرملاحظہ کے لیے پیش ہے۔
ہمارے ملک بلکہ پورے عالمِ اسلام میں ایک خاصا مؤثر حلقہ وہ ہے جو اپنی سوچ‘ اپنے نظریاتی اور اچھے برے تمام تر پیمانے مغربی افکار سے بھیک مانگ مانگ کر حاصل کرتا ہے اور پھر انہی کی ترویج و اشاعت کو اپنے ماڈرن‘ فیشن ایبل اور روشن خیال ہونے کی علامت سمجھوتا اور اس پر فخر کرتا ہے۔
مغرب میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں جو ٹیڑھے ترچھے خیالات پائے جاتے ہیں‘ انہیں میں سے ایک خیال یہ بھی ہے کہ معاشرہ کا امن و سکون غارت کرنے والے مجرموں کو قانون کے ذریعے جتنا زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کی سزائوں میں جتنی نرمی برتی جائے اتنا ہی وہ روشن خیالی کی علامت ہے اور ایسے مجرموں کے لیے جتنی سخت سزائیں مقرر کی جائیں اتنی ہی وہ دقیانوسیت اور وحشت اور بربریت کی علامت ہیں۔
یہ الٹی طرز فکر جس کی رو سے ایک طے شدہ مجرم‘ معصوم اور بے گناہ معاشرے کے مقابلے میں زیادہ قابلِ رحم ہے۔ مغرب کی نقالی کے شوق میں مسلمان ملکوں میں بھی رواج پارہی ہے اور اسی ذہنیت کامظاہرہ ہمارے ملک میں حدود آرڈیننس کے خلاف پروپیگنڈے کی صورت میں کچھ عرصے سے ہورہا ہے۔
اسی دوران احقر کو پچھلے دنوں امریکا اور کینیڈا کا سفر پیش آیا‘ وہاں ایک اخبار میں ایک دلچسپ مگر عبرتناک خبر نظر سے گزری جو اس موضوع سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ میں اپنے ساتھ وہ اخبار اسی خیال سے لے آیا تھا کہ یہ خبر قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کروں گا شاید وہ جرم و سزا کے باب میں مغرب کی نقالی چاہنے والوں کے لیے سرمۂ بصیرت بن سکے۔
ایک وحشی کا کارنامہ:
یہ اخبار ٹورنٹو (کینیڈا) سے شائع ہونے والا ’’نیشنل انکوائرڑ‘‘ ہے جس کا یہ دعویٰ اس کے سرورق پر لکھا ہوا ہے کہ وہ امریکی براعظم کا سب سے کثیر الاشاعت ہفت روزہ ہے۔ اس کی ۱۷ اکتوبر ۱۹۸۹ء کی اشاعت میں صفحہ ۵۰پر ایک خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کینیڈا کے علاقے برٹش کولمبیا میں ایک وحشت ناک مجرم کلیفر ڈالولسن کو قتل‘ زنا بالجبر اور غیر فطری عمل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ یہ شخص نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو روزگار دلانے کے بہانے اپنے ساتھ لے جاتا‘ ان کو نشہ آور گولیاں دیتا۔ پھر ان کے ساتھ زبردستی جنسی عمل کرتا اور بالاخر انہیں قتل کرکے ان کی لاش دور دراز کے مقامات پر دفن کردیتا تھا۔ جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس نے گیارہ نو عمر بچوں اور بچیوں کے بارے میں یہ اعتراف کیا کہ اس نے اس سب کو ورغلا کر ان کے ساتھ زنا یا لواطت بالجبر کا ارتکاب کیا اور ان سب کو قتل کرکے انہیں مختلف علاقوں میں چھپا دیا اور قتل بھی اس بہیمیت کے ساتھ کیا کہ جب ایک بچے کی لاش برآمد ہوئی تو اس کے سر میں لوہے کی ایک میخ اس درندے نے ٹھونکی ہوئی تھی۔
لیکن دلچسپ اور عبرت انگیز بات یہ ہے کہ جب پولیس نے اس درندہ صفت مجرم سے یہ مطالبہ کیا کہ جن گیارہ بچوں کو اس نے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ہے ان کی لاشوں کی نشاندہی کرے تو اس نے کہا کہ میں نے ان گیارہ کے گیارہ بچوں کی لاشیں خود اپنے ہاتھوں سے مختلف جگہوں پر چھپائی ہیں اور مجھے یہ جگہیں معلوم ہیں لیکن اگر آپ مجھ سے ان جگہوں کی نشاندہی کرانا چاہتے ہیں تو مجھے فی لاش دس ہزار ڈالر معاوضہ ا دا کریں۔ چوری اور سینہ زوری کی ایسی تاریخی مثال کب کسی کے تصور میں آئی ہوگی؟ لیکن قانون اور اس کے نظام کی بے بسی کا اندازہ کیجیے کہ پولیس نے بالاخر اس کے مطالبے کے آگے ہتھیار ڈال دیئے اور خوشامد درآمد کے بعد جو زیادہ سے زیادہ رعایت اس مجرم نے پولیس کو دی وہ یہ تھی کہ اگر دس بچوں کی لاشوں کی برآمدی کا معاوضہ یعنی ایک لاکھ ڈالر آپ مجھے دے دیں گے تو گیارہویں بچے کی لاش میں مفت میں برآمد کرادوں گا۔ بالاخر پولیس نے اس ’’رعایت‘‘ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اولسن کو ایک لاکھ ڈالر معاوضہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد اس نے کینیڈ اکے مختلف شہروں سے گیارہ بچوں کی لاشیں پولیس کے حوالہ کیں۔ ان گیارہ بچوں کی تصویریں بھی اخبار نے شائع کی ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بچے بارہ سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے ہوں گے۔
ان جرائم شنیعہ کی برائے نام سزا:
اس ’’تفتیش ‘ اعتراف‘‘اور ایک لاکھ ڈالر کے نفع بخش سودے کے بعد جب مجرم پر مقدمہ چلایا گیا تو چونکہ کینیڈ امیں سزائے موت کو ’’وحشیانہ‘‘ سزا قرار دے کر ختم کردیا گیا ہے اسی لیے عدالت اس مجرم کو زیادہ سے زیادہ جوسزا دے سکی وہ عمر قید تھی۔ البتہ عدالت نے جرم کی سنگینی کے اعتراف کے طور پر سزا دیتے وقت یہ’’سفارش‘‘ ضرور کردی کہ اس مجرم کو کبھی پیرول پر رہا نہیں کیا جاسکے گا۔ اخبار نے ’’سفارش‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید عدالت کو ایسا ’’حکم‘‘ دینے کا اختیار نہیں تھا وہ صرف ’’سفارش‘‘ ہی کرسکتی تھی۔
مقتول بچوں کے والدین:
ان گیارہ بچوں کے ستم رسیدہ ماں باپ کو جب یہ پتہ چلا کہ جس درندے نے ان کے کمسن بچوں کی جان لی اور ان کی عزت لوٹی اسے ایک لاکھ ڈالر کا معاوضہ ادا کیا گیا ہے تو ان میں اضطراب اور اشتعال کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے اولسن پر ایک ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ کینیڈا کے ٹیکس دینے والوں کے ایک لاکھ ڈالر جو اس درندہ صفت مجرم کی جیب میں گئے ہیں ‘ کم از کم وہ اس سے واپس لے کر مرنے والے بچوں کے ورثاء کو دلوائے جائیں لیکن ان کو اس مقدمے میں شکست ہوگئی۔ اپیل کورٹ نے بھی ان کا مقدمہ خارج کردیا اور سپریم کورٹ نے یہ کیس سننے سے انکار کردیا۔
دوسری طرف مجرم اولسن نے ۲۴ جنوری کو ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ اسے جیل میں بہتر رہائشی سہولیات مہیا کی جائیں۔ ہائی کورٹ نے یہ درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی ہے بلکہ اس درندے نے یہ درخواست بھی دی تھی کہ مسلسل قید کی وجہ سے مجھے اپنے پاگل ہونے کا خطرہ ہے اس لیے مجھے رہائی دی جائے۔ لیکن عدالت نے یہ کرم کیا کہ یہ درخواست مسترد کردی۔ جن لوگوں کے بچے اس وحشت ناک ظلم و ستم کا نشانہ بنے‘ انہوں نے اس صورتحال کے نتیجے میں انجمن بنائی ہے جس کا نام ’’نشانہ ہائے تشدد‘‘ ہے۔ اس انجمن نے پارلیمنٹ کے ارکان سے مطالبہ کیا ہے کہ کینیڈا میں سزائے موت کو واپس لایا جائے۔ اس انجمن کے ایک نمائندے نے اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’’ہم نے ہار نہیں مانی۔ ہم نے ایک گروپ بنایا ہے اور ہم نے کینیڈا کی پارلیمنٹ کے ارکان سے مطالبہ کیا ہے کہ کینیڈا میں سزائے موت کو واپس لایا جائے۔ اولسن جیسے درندوں کو سیدھا جہنم میں بھیجنا چاہیئے جہاں کے وہ واقعتاً مستحق ہیں۔
مجرم سے قانونی پیار:
اخبا ر کی رپورٹ کا یہ خلاصہ ہم نے بے کم وکاست عرض کردیا ہے جو کسی طویل تبصرے کا محتاج نہیں۔ مجرموں کو دی جانے والی عبرتناک سزائوں کو ’’وحشیانہ‘‘ اور ’’غیر مہذب‘‘ قرار دے کر مجرموں کے ساتھ قانونی پیار کا سلوک کرکے حالت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مجرم کو ایک لاکھ ڈالر (یعنی تقریباً ۶۰ لاکھ پاکستانی روپے) کا معاوضہ اداکیا گیا اور سینے پر اولاد کا زخم کھائے ہوئے ستم رسیدہ افراد کو ایک پیسہ ہرجانہ دینے کی گنجائش پید انہ ہوئی‘ مجرم کو جیل میں ’’بہتر سہولیات‘‘ فراہم کرنے پر عدالت غور کررہی ہے۔ لیکن ’’نشانہ ہائے ستم‘‘ کی فریاد سننے کے لیے کوئی عدالت تیار نہیں۔ دوسری طرف ہمارے ملک کے فکری بزر جمہور ہیں کہ انہیں ہمارے پورے نظامِ قانون میں سب سے بڑی خرابی اس ’’حدود آرڈیننس‘‘ میں نظر آتی ہے جس کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ اس نے اس قسم کے درندہ صفت مجرموں کے لیے وہ سزائیں تجویز کی ہیں جن کے وہ مستحق ہیں۔
اسلام کی حدود وتعزیرات :
اسلام نے قصاص ودیت اور حدو د و تعزیرات کے ذریعے انسانی نفسیات کے ہر پہلو کا اس باریک بینی سے خیال رکھا ہے کہ اس میں ایک طرف مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے اور اسے دوسروں کے لیے سامان عبرت بنانے کا پورا اہتمام موجود ہے اور دوسری طرف جو لوگ اس قسم کے جرائم کا نشانہ بنتے یا اس سے متاثر ہوتے ہیں ان کی جذباتی تسکین اور مالی تلافی دونوں کا انتظام کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اگر ایک مرتبہ کسی جرم کا ارتکاب ہو تو اس کے تمامتر نتائج و ثمرات اسی ایک واقعے پر ختم ہوجائیں ۔ نفرتوں اور عداوتوں کی آگ کو مزید بھڑکا کر اور زیادہ جرائم کو ہوا دینے کا موقع نہ ملے۔ورنہ ظاہر ہے کہ اگر مجرم کو کیفر کردار تک نہ پہنچتا دیکھ کر متاثر افراد کا اشتعال ٹھنڈا نہیں ہوگا بلکہ وہ یہ دیکھیں گے کہ ایسے گھنائونے جرائم کے ذمہ دار نہ صرف آزادی سے دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ انہیں ان کے جرائم پر معاوضہ سے نوازا جارہا ہے توان کے سینے کی آگ کسی نہ کسی دن کوئی شگوفہ ضرور کھلا کر رہے گی۔
اسی لیے اسلام نے ایک عبرتناک سزائوں کا نظام قائم فرمایا ہے اور دوسری طرف ضرر رسیدہ افراد کے لیے دیت یا خون بہا کی شکل میں مالی تلافی کا بھی انتظام کیا ہے۔ لیکن چونکہ مغرب کے اسلام دشمن حلقوں کے منہ سے ایک مرتبہ یہ لغو بات نکل گئی کہ ’’اسلام کی سزائیں وحشیانہ اور غیر مہذب ہیں‘‘ تو ہمارے وہ مغرب پرست حلقے جن کے دماغ سے لے کر دل تک کوئی چیز اپنی نہیں ہے اور جن کی سوچ سے لے کر جذبات تک ہر چیز مغرب سے مانگی ہوئی ہے‘ اسلام کی مقرر کردہ سزائوں پر تنقید کرنے سے ہی نہیں بلکہ ان کے خلاف دریدہ دھنی سے بھی نہیں چوکتے۔
یہ عبرت انگیز واقعاتی داستان آپ نے پڑھ لی۔
یعنی ایک بدترین مجرم نے نہایت گھنائونے جرائم بھی کیے اور گیارہ لڑکوں اور لڑکیوں کو نشانہ ہوس بنا کر ان کو قتل کرکے مختلف جگہوں پر زمین میں دبادیا۔ نیز ان کے والدین کو شدید ناقابل تلافی صدمے سے دوچار کیا مگر کمال یہ ہے کہ اس نے یہ سب کچھ کرکے حکومت اور پولیس سے ایک لاکھ ڈالر دوران مقدمہ کمائے جبکہ ہلاک ہونے والے بچوں کے دکھی والدین کو ان کی درخواست کے باوجود کوئی معاوضہ نہیں ملا۔ یہ ہے جدید مغربی تہذیب کا کمال اور وحشیانہ سزائوں کے بجائے شریفانہ سزا کی مثال۔
کیا آپ لوگوں کی منزلِ مقصود وہی ہے؟
روشن خیال پاکستانی بیگمات و حضرات! کیا آپ لوگوں کی منزل مقصود وہی ہے؟ کیا آپ معاملات کو یہاں تک پہنچانا چاہتے ہیں؟ یاد رکھیے کہ ابھی یہ مقام نہیں آیا مگر جس نئی معاشرت کی گاڑی پر بیٹھ کر آپ ترقی کی پٹڑی پر تیزی سے بڑھ رہے ہیں اس لائن پر ایک ریلوے اسٹیشن یقیناً وہ آئے گا جس کی سیر آپ کو کرادی گئی ہے۔
آخرت کا مسئلہ:
ایک شخص اپنے بچوں کے ساتھ باغ میں داخل ہوا۔ وہاں کیڑے مکوڑے تھے۔ چوہے اور چیونٹیاں تھیں۔ پھر سب کے بیچ میں ایک بھیانک بھیڑیاکھڑا ہوا تھا۔ اس منظر کو دیکھ لینے کے بعد اس کے منہ سے کیا چیخ نکلے گی؟ وہ بے ساختہ پکار اٹھ گا۔ بچو! بھیڑیا۔ بچائو اپنے کو بھیڑیئے سے۔ بھیڑیئے کے بھیانک چہرے کو دیکھنے کے بعد وہ دوسری تمام چیزوں کو بھول جائے گا۔ اس کو ایسا محسوس ہوگا گویا سارا باغ بھیڑیا بن گیا ہے۔ اس کے سامنے اس کے سوا کوئی اور مسئلہ نہ ہوگا کہ بھیڑیئے سے بچنے کی تدبیر کرے۔
ہم جس دنیا میں رہتے ہیں‘ اس میں بھی بہت سے مسائل ہیں۔ ویسے ہی جیسے باغ میں کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں۔ مگر انہیں کے درمیان میں ایک سب سے بڑا مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔ یہ آخرت کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اس کو جان لیں تو ہم کو پوری کائنات میں آخرت کے سوا کوئی دوسری چیز دکھائی نہ دے۔ اس کے بعد ہم آخرت کے لیے پکاریں گے‘ نہ کہ ’’کیڑوں اور چیونٹیوں‘‘ کے لیے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’بیداری‘‘حیدرآباد ۔ جنوری ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply