
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صحت و تندرستی قدرت کی ایک بیش بہا نعمت ہے جس کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔ تندرستی کے بغیر زندگی کا ہر رنگ پھیکا، بے کیف اور بے لذت محسوس ہوتا ہے اس حقیقت کا ادراک وہی افراد بخوبی کر سکتے ہیں جو جان لیوا امراض میں مبتلا ہیں اور زندگی کی جنگ لڑتے ہوئے موت کے ہاتھوں بے بس ہو جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں شعور و آگہی کی جڑیں ہمیشہ سے کمزور رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ معاشرے کے سلگتے مسائل کے حتمی تدارک کے لیے عدلیہ، انتظامیہ اور شہریوں کے باہم رابطے کا فقدان دکھائی دیتا ہے خصوصاً صحت کے شعبے میں ایسے سنگین مسائل سر اٹھا رہے ہیں جنہیں فوری طور پر حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ایک عمومی اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں ایسی مضر صحت اشیا کی فروخت عروج پر ہیں جو قوم کی صحت کو دیمک کی مانند نگلتی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے پان، گٹکا، چھالیہ کا ذکر لازمی ہے گزشتہ کچھ عرصے میں یہ مضر اشیا اس حد تک عام ہو گئی ہیں کہ ہر شخص انھیں کھا کرنا صرف اپنی صحت تباہ و برباد کر رہاہے بلکہ یہ اشیا بچوں میں بھی بہت مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ شہر کا ہر شخص چھالیہ چباتا، پان تھوکتا اور کھاتا ہوا دکھائی دیتا ہے ان تمام اشیا میں تمباکو کی گھٹیا ترین قسم کیمیکلز اور رنگ شامل ہیں جنہیں نہایت مضر صحت ماحول میں خفیہ طریقے سے تیار کیا جا تا ہے۔ طبی ماہرین نے حالیہ منعقدہ کانفرنس میں اس حقیقت کی ایک بار پھر نشاندہی کی ہے کہ دانتوں کے امراض منہ، حلق اور پھیپھڑوں کے کینسر جیسی نوے فیصد بیماریاں تمباکو، گٹکے اور چھالیہ کے استعمال سے ہو رہی ہیں لیکن ان اشیا میں نشہ کی آمیزش اس قدر شامل کی جاتی ہے کہ فرد غیر محسوس طریقے سے ان اشیا کا عادی ہو جاتا ہے اور یہ اشیا زندگی کا ایک حصہ بن جاتی ہیں۔
نوجوانوں میں گٹکے کی وبا ایک فیشن کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گٹکا سرطان جیسے مہلک مرض کو تیزی سے پھیلانے کا سبب بن رہا ہے اور نوجوان یہ جانے بنا کہ ان مضر صحت اشیا کی تیاری میں کن اجزاء کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بے دریغ گٹکے کا استعمال کر رہے ہیں۔ بعض ذرائع سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ گٹکے کی تیاری میں جانوروں کے خون، کھجور کی گٹھلیاں، تیزاب، افیون، تیز خوشبو، کتّھا اور ناقابل استعمال تمباکو کو شامل کیا جا تا ہے۔ یہ تمام عمل گٹکے کو زیادہ کاٹ دار ذائقہ دیتا ہے اور اس میں ڈالی گئی افیون کی مقدار سے گٹکا ایک ایسا نشہ آور جز کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ اس تیار شدہ سڑے ہوئے نشے کو پیکٹوں میں بند کر کے بازار میں عام فروخت کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ ملک میں کوئی ایسا فعال نظام موجود نہیں جو بازار میں فروخت کے لیے لائے جانے والے غذائی اجزاء کو لیبارٹری میں تجزیے کے بعد کلیئرنس کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ہر نظام کی مانند شعبہ صحت کی انتظامیہ بھی اپنے فرائض سے چشم پوشی برت رہی ہے جس کے نتیجے میں نشہ آور سپاریوں، سونف، تمباکو، گٹکا اور پان کی فروخت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حلق، زبان اور منہ کی بیماریوں میں مبتلا افراد کی کثیر تعداد سرطان کے مرض کا شکار ہو رہی ہے۔
چھالیہ بچوں کے اسکول اور گھروں کے اطراف باآسانی دستیاب ہے تین سال کی عمر کے بچے بھی چھالیہ چباتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں، جب گھر کے بالغ افراد پان، چونا، کتھا، تمباکو کو کھانے کے عادی ہیں تو وہ بچوں کو چھالیہ کھانے سے کیونکر روکیں گے ؟
ایک اندازے کے مطابق چھالیہ سے سالانہ تین سو بچوں کی اموات ہو جاتی ہیں، بچے ہنستے کھیلتے اسے منہ میں ڈال لیتے ہیں اور سانس کے ساتھ ہی حلق کی نالی میں پھنس جاتی ہے۔ جس سے فوری موت واقع ہوجاتی ہے اس کے علاوہ چھالیہ بچوں کے دودھ کے دانت ختم کر دیتی ہے بھوک نہیں لگتی۔ یہ مضر صحت اشیا بچے کی نشو ونما کے عمل کو سست کر کے اسے لاغر اور بیمار رکھتی ہے۔
یہ تمام اقسام کی مضر صحت اشیا حلق، منہ اور غذائی نالی میں زخم پیدا کر دیتی ہیں۔ جبڑے، گلے کے غدود اور منہ کے اندرونی عضلات سخت ہو جاتے ہیں جس سے منہ کھولنے اور چبانے میں نہایت دشواری ہوتی ہے یہ زخم قلیل عرصے میں سرطا ن میں تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن باعث حیرت ہے کہ مریض پھر بھی انھیں ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ نہ صرف یہ کہ ان ضرر رساں اشیا کی خرید و فروخت عروج پر ہے بلکہ منشیات یعنی چرس کے استعما ل میں بھی ماضی کے مقابلے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، چرس ہیروئن سے کہیں کم نرخوں پر دستیاب ہے۔ چرس و ہیروئن کی خفیہ اسمگل کئی عشروں سے جاری ہے۔
چر س کے عادی نوجوان شہر میں ’’اسٹریٹ کرائمز‘‘ کی وارداتوں میں ملوث ہیں، جو نشہ میں دُھت معمولی مزاحمت پر بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ تاحال سیکڑوں شہری ان وارداتوں میں موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ لیکن منشیات فروشی کا یہ مذموم کا روبار ہر سطح پر پھیلا ہوا ہے۔ جس کی بار ہا نشاندہی کے باوجود ان مجرموں پر آہنی ہاتھ نہیں ڈالا جا سکا، جو نوجوانوں کے خون میں نشے کی لعنت شامل کر کے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔
منشیات و چرس کی وبا ہر عمر کے نوجوانوں سے بچوں میں بھی پھیلتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے سڑکوں پر لاوارث زندگی بسر کرنے والے بچوں کا ذکر ضروری ہے جنہیں منشیات فروش گھناؤ نے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بچے منشیات کی لت میں مبتلا ہو کر انہی فروخت کنندہ کے گروہ میں بھی شامل ہو جاتے ہیں اور منشیات فروش ان کے ذریعے غریب طبقے کے نوجوانوں اور بچوں تک باآسانی رسائی حاصل کرتے ہیں جو بالآخر چرس کی طلب میں مبتلا ہو کر ہمیشہ کے لیے جرم کے راستے پر گامزن ہو جاتے ہیں۔ خوشحالی، تہذیبی اقدار اور مثبت رحجانات پروان چڑھانے کے لیے ایک صحت مند معاشرے کا قیام نا گزیر ہے جو نشہ کی لعنت سے پاک ہو ضرورت اس امر کی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر نشے کے استعمال، فروخت اور تیاری کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
مضر صحت اشیا کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو ممنوع اشیا کی فروخت کنندہ کے خلاف کارروائی کا مکمل اختیار رکھتی ہوں۔ اسکول کے احاطے میں بچوں کو فروخت کی جانے والی اشیا کی معیار کا جائزہ لیا جائے۔ ماضی میں بھی کئی نمائشی چھاپے مار ے گئے لیکن یہ مضر صحت اشیا اسی دیدہ دلیری سے فروخت کی جاتی رہیں۔ سر عام پان کھانا اور جہاں جی میں آئے تھوک دینا بھی ہمارے مجموعی بیمار ذہن معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اس حوالے سے شہری حکومت کو قوانین پر سختی سے عمل در آمد کروانے کی ضرورت ہے۔
(بحوالہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاٹ کام)
Leave a Reply