
سعودی عرب عشروں سے اپنے مغربی شریکوں کا دوست رہا ہے۔ ان میں سے بعض مثلاً برطانیہ، کہ جہاں میں نے بطور سفیر کام کیا ہے، سے یہ تعلق تقریباً ایک صدی پر مشتمل ہے۔ یہ اسٹریٹجک اتحادی ہیں، جس کا ہم دونوں کو فائدہ ہے۔ حال ہی میں، یہ تعلقات آزمائش سے گزرے۔۔۔ خاص کر ایران اور شام کے حوالے سے اختلاف کی وجہ سے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایران اور شام کے حوالے سے مغرب کی بہت سی پالیسیاں مشرقِ وسطیٰ کے استحکام اور تحفظ کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ ایک خطرناک جوا ہے، جس کے بارے میں ہم خاموش نہیں رہ سکتے اور نہ بت بنے دیکھ سکتے ہیں۔
شام کا مسئلہ ختم ہوتا نہیں لگتا۔ وہاں اب تک ایک لاکھ سے زائد شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ آکسفرڈ ریسرچ گروپ کی رپورٹ کے مطابق، گیارہ ہزار ہلاک شدگان سترہ برس سے کم عمرکے ہیں اور ستر فی صد سے زائد شہری علاقوں پر باقاعدہ فضائی حملوں اور بم باری کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔
بشارالاسد کی سفاک حکومت کی جانب سے استعمال ہونے والے مہلک ہتھیاروں کی تلفی کے لیے اگرچہ بین الاقوامی کوششیں کی گئی ہیں، لیکن مغرب کو یہ دیکھنا چاہیے کہ خود یہ حکومت مہلک ترین نہیں ہے؟ کیمیائی ہتھیار تو بشارالاسد کی مہلک مشین کا ایک معمولی حصہ ہیں۔ اب جب کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک بین الاقوامی اقدام کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں، ان کی حکومت اس سنجیدہ مسئلے کو گھمبیر بنانے کے لیے اپنی قوت کے ساتھ سب حربے آزمائے گی۔
شام میں ایرانی فوجیوں کی موجودگی بشارالاسد کی حکومت کو تقویت پہنچارہی ہے۔ یہ فوجیں شام میں بیرونی مداخلت کو روکنے کے لیے داخل نہیں ہوئیں، بلکہ یہ اس شیطانی حکومت سے تعاون کررہی ہیں جو شامی عوام کو مار رہی ہے۔ ایسا حربہ ایران اس سے پہلے عراق میں، نیز یمن اور بحرین میں حزب اللہ کے جنگجوئوں کی معاشی مدد اور تربیت کرکے اختیار کرچکاہے، اور ہمارے چند مغربی ساتھی شامی اور ایرانی حکومتوں کو چیلنج کرنے کے بجائے، ان کے خلاف مزید اقدامات کرنے کے امکان کو مسترد کر چکے ہیں۔ مغرب ایک آمر کو اپنی حکومت جاری رکھنے اور دوسرے (ایران) کو یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے کی اجازت دے چکا ہے، حالانکہ اس سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا خطرہ موجود ہے۔
اس سال ایران سے ہونے والے مذاکرات کے بعد ان دونوں حکومتوں کے خلاف اقدامات کا امکان ختم ہوسکتا ہے۔ اس ’’امن‘‘ کی قیمت بھلا کیا ہوگی کہ جو اس قسم کی حکومتوں کے ذریعے قائم کیا جائے۔
بعض مغربی حکومتوں نے جو خارجہ پالیسی اختیار کی ہے، اس سے خطے کا استحکام، بالخصوص تمام عرب دنیا کا تحفظ خطرے میں پڑگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خطے کے حقیقی استحکام کے لیے سعودی عرب کے پاس اب بین الاقوامی معاملات میں زیادہ متحرک اور چست ہونے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔
اسلام کا منبع اور عرب دنیا کی سب سے نمایاں سیاسی قوت ہونے کے ناتے خطے میں سعودی عرب کی بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر توانائی کے مرکز کی حیثیت سے ہماری معاشی اور سیاسی ذمہ داریاں بھی ہیں اور اسی طرح، انسانی ذمہ داریوں کی بنیاد پر، شام میں مشکلات کے خاتمے کے لیے ہم جو کچھ کرسکتے ہیں، کریں گے۔
ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے ہم کام کریں گے، خواہ ہمارے مغربی ساتھی ہمارا ساتھ دیں یا نہ دیں۔ عرب دنیا میں تادیر امن اور استحکام کے لیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ رکھیں گے، اس سے پہلے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مسئلے کو حل کرنے کے لیے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ ۲۰۰۲ء کی ’’عرب پیس انیشئیٹو‘‘ میں یہ پہلے بھی ثابت کرچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نشست کو آزادانہ طور پر مسترد کرنے کا فیصلہ کرکے ہم نے دکھادیا کہ ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ بین الاقوامی مذاکرات کا کیا فائدہ کہ جب لاتعداد جانیں خطرے میں ہوں اور جب اقوام متحدہ کی بے عملی کی وجہ سے امن اور تحفظ کے بہت سے مواقع ضائع ہوجائیں۔
آزاد شامی فوج (فری سیرین آرمی) اور شام کی حزب اختلاف سے تعاون کرکے ہم اپنے عزم کا اظہار کرتے رہیں گے۔ محض القاعدہ کی دہشت گردی کے خوف سے شام میں کوئی آپریشن یا ایکشن نہ کرنے کا بہانہ کرنا بعض مغربی قوتوں کے لیے بہت آسان ہے۔ لیکن خود القاعدہ کی سرگرمیاں اس بات کی علامت ہیں کہ بین الاقوامی کمیونٹی مداخلت کرنے اور حالات کو قابو کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ چنانچہ صرف القاعدہ کو بنیاد بنا کر کوئی اقدام نہ کرنا انصاف نہیں ہے۔ شدت پسندوں میں اضافے کو روکنے کا مؤثر طریقہ ۔۔۔ خواہ وہ شام میں ہو یاکہیں اور۔۔۔ یہ ہے کہ اعتدال پسندوں کی مددکی جائے، خواہ وہ معاشی طور پر ہو، مادی طور پر ہو یا اگر ضرورت پڑے تو فوجی لحاظ سے بھی۔ بہ صورت دیگر، تمام تر حکمت عملی ناکام رہے گی اور انسانی تباہی تیزی سے جاری رہے گی۔
سعودی عرب، جہاں تک ضروری ہوا، اس نئے راستے پر اپنا سفر جاری رکھے گا۔ ہمیں توقع ہے کہ ہمارے دوست ہمارے شانہ بہ شانہ ہوں گے، جو خارجہ پالیسی میں اخلاقی اَقدار کی اہمیت کی بات بڑے شد و مد سے کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس سال ہمارے ساتھیوں کی گفتگو سے دکھائی دیتا ہے کہ وہ ہمارے تحفظ اور خطے کے استحکام کے خطرے کے بارے میں پسپائی اختیار کررہے ہیں۔
مضمون نگار برطانیہ میں سعودی عرب کے سفیر ہیں۔
(“Saudi Arabia will go it alone”… “New York Times”. Dec. 17, 2013)
Leave a Reply