مستقبل کی افغان ریاست اور طالبان | 2

یہ رپورٹ سینٹر آن انٹرنیشنل کوآپریشن (CIC) کی تیار شدہ ہے۔ CIC نیویارک یونیورسٹی کے شعبۂ سماجی اور سائنسی علوم کے تحت قائم تحقیقی مرکز ہے۔ CIC کی ویب گاہ کے مطابق اِس کا بنیادی مقصد عالمی تنازعات اور مسائل میں بین الاقوامی تعاون اور اشتراکِ عمل کو فروغ دینا ہے۔ CIC آسٹریلیا، برازیل، انڈیا، چائنا، قطر، دبئی، امریکا اور یورپ سمیت دنیا بھر کے تحقیقی مراکز اور مجلسِ دانش وراں (Think Tank) سے قریبی تعلقات رکھتی ہے۔ زیرِ نظر مضمون کی پہلی قسط یکم دسمبر ۲۰۱۶ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔

کچھ مصنفین کے بارے میں

آنند گوپال نیو امریکا فاؤنڈیشن کے فیلو ہیں۔ ان کی کتاب ’’نو گڈ مین امنگ دی لِوِنگ : امریکا، دی طالبان اینڈ دی وار تھرو افغان آئیز‘‘ پلٹزر پرائز اور نیشنل بک ایوارڈ کی فائنلسٹ رہی ہے۔ ٹوئٹر : Anand_Gopal_

برہان عثمان نے چند ہم خیال افراد کو جمع کرکے افغانستان تجزیاتی نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔ ان کی خاص توجہ عسکریت پسندی اور انتہا پسندی پر ہے۔ ٹوئٹر : @Borham

ایگزیکٹیو سمری

یہ رپورٹ طالبان کے سیاسی ونگ سے وابستہ شخصیات کے انٹرویوز، بیانات اور دیگر دستاویزات پر مبنی ہے۔ انٹرویوز کی مدد سے ۱۹۹۰ء کے عشرے اور اس کے بعد کے حالات کا جائزہ لینے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے تاکہ طالبان کے نظریات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا درست اندازہ لگایا جاسکے اور یوں یہ بھی معلوم ہوسکے کہ طالبان اب افغانستان میں کس نوعیت کا ریاستی ڈھانچا دیکھنا یا بنانا چاہتے ہیں۔

زیر نظر رپورٹ کی روشنی میں دراصل تین بنیادی سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوال درج ذیل ہیں:

۱۔ طالبان غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد ریاستی مشینری میں کس کس کی شمولیت پسند کریں گے یا ملک کو چلانے کے لیے بنائے جانے والے انتظامی ڈھانچے میں کس کس کو شامل کیا جاسکے گا؟

۲۔ نئی افغان ریاست کے خد و خال کیا ہوں گے؟ اسلامی ریاست کے احیاء کے معاملے میں طالبان اب کس حد تک لچک رکھتے ہیں اور انتخابی جمہوریت سے متعلق ان کے خیالات وہی (غیر لچک دار) ہیں یا کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے؟

۳۔ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد کی افغان ریاست میں سیاسی، معاشرتی اور معاشی معاملات پر طالبان کی سوچ کیا ہوگی؟ کیا طالبان حقوق نسواں، تعلیم اور شہری آزادیوں سے متعلق اپنے غیر لچک دار موقف کو تبدیل کرچکے ہیں یعنی کچھ نرمی پیدا کرچکے ہیں جیسا کہ ان کے بعض رہنما دعوے کرتے آئے ہیں؟

یہ اسٹڈی ان پہلی کوششوں میں سے ہے جن کے ذریعے طالبان کے سیاسی ونگ کے ارکان اور میڈیا سے تعلق رکھنے والوں سے بات کی گئی ہے۔ طالبان کے سیاسی ونگ کے ذہن میں جھانک کر یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ بیرونی قوتوں کے مکمل انخلا کے بعد کی صورت حال میں کس طور ایڈجسٹ کریں گے، کس طور کام کریں گے۔ اس اسٹڈی میں اُن شخصیات سے بھی بات کی گئی ہے جن کا تعلق طالبان سے براہِ راست نہیں تاہم طالبان قیادت سے ان کے گہرے روابط اور مراسم رہے ہیں۔ یہ شخصیات طالبان کے بارے میں ٹھوس رائے رکھتی ہیں اور ان کی آراء کی مدد سے آپ بھی یہ جاننے میں کامیاب ہوسکیں گے کہ اب طالبان سیاسی اعتبار سے کس نوعیت کے نظریات رکھتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں جھانکنے کی کوشش کی گئی ہے جو افغانستان کے مستقبل سے متعلق مذاکرات کا حصہ بنیں گے۔ اس صورت میں طالبان کی پوزیشن سمجھنے میں مدد ملے گی۔ یہ معلوم ہوسکے گا کہ مستقبل سے متعلق مذاکرات میں شریک ہونے والوں کو سیاسی اعتبار سے کن حدود کا سامنا ہوگا۔

کیا جاننے کو ملا؟

اقتدار میں شراکت

۱۔ زیر نظر انٹرویوز سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ اب طالبان اقتدار میں شراکت پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ سیاسی مخالفین کو نہ تو مکمل طور پر ہرایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ یعنی بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ مل کر کام کیا جائے اور اپنے مفادات کو داؤ پر لگائے بغیر یا ان کے مفادات کو مکمل طور پر نظر انداز کیے بغیر کوئی ایسا درمیانی راستہ نکالنا ہوگا جو فریقین کے ساتھ ساتھ ریاست کے بھی مفاد میں ہو۔

۲۔ طالبان کی قیادت کا ایک حصہ سابق شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والی سرکردہ شخصیات سے بھی بات چیت کرتا رہا ہے۔ یہ ایک خوش آئند علامت ہے۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ طالبان افغانستان کے لیے ایک ریاستی ڈھانچا چاہتے ہیں جس میں مختلف نظریات اور مفادات رکھنے والوں کو بہتر طریقے سے ایڈجسٹ کیا جاسکے۔

۳۔ انٹرویوز سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی کہ طالبان شاید محض اقتدار میں شراکت پر راضی نہ ہوں۔ چند وزارتوں اور گورنر شپس سے کہیں بڑھ کر وہ چاہتے ہیں کہ مسلح افواج کے ڈھانچے اور دیگر معاملات کو بھی نئے سرے سے ترتیب دیا جائے۔

اگر انخلا کے بعد نظام کی تشکیل نو پر آمادگی ظاہر کردی جائے تب بھی طالبان کا عسکری ونگ اقتدار میں شراکت کے طریق کار کا مخالف ہوسکتا ہے۔ اور اس سے قبل وہ مذاکرات کی بھی مخالفت کرسکتا ہے۔ پاکستان اور خلیج میں سکونت پذیر طالبان رہنما یہ بات سمجھتے ہیں کہ جو لوگ غیر ملکی افواج اور افغان فورسز سے لڑتے آئے ہیں اور غیر معمولی جانی و مالی نقصان سے دوچار ہوتے رہے ہیں وہ غیر معمولی رعایتیں بھی چاہیں گے۔ انٹرویوز میں یہ واضح نہیں ہوسکا کہ یہ رعایتیں کس نوعیت کی ہوں گی یعنی جو جان و مال کی قربانیاں دیتے آئے ہیں، اہل خانہ اور دیگر رشتہ داروں سے محروم ہوچکے ہیں وہ اب اِن قربانیوں کے عوض کیا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ طالبان سے مذاکرات کرنے والوں کو سیاسی ونگ سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے معاملات طے کرنے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر قربانیاں دینے والوں کے آنسو پونچھنے کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ (جنوبی افریقا کی طرز پر) ٹروتھ اینڈ ری کونسی لئیشن کمیشن بناکر چار عشروں سے مختلف بحران کا شکار ہونے والوں کی شکایات دور کرنا ہوں گی تاکہ بعد میں ماضی کی بنیاد پر انتقامی رجحانات کے پنپنے کی گنجائش قابل قبول حد تک کم کی جاسکے۔

ریاست سے متعلق نظریات

٭ انٹرویوز کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ طالبان سے وابستہ سرکردہ شخصیات کے ذہن میں ریاست سے متعلق تصورات واضح نہیں۔ وہ اسلامی شریعت کی بنیاد پر قائم کی جانے والی ریاست کے بارے میں تو ایک مبہم تصور ضرور رکھتے ہیں مگر جدید دور کے ریاستی ڈھانچوں کے بارے میں اُن کی سوچ وہ نہیں جو ہونی چاہیے۔

٭ اس نکتے پر بھی اتفاق پایا گیا کہ موجودہ آئین کو مکمل طور پر مسترد کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ آئین میں درج ہے، اس کا درست اطلاق کیا جائے اور یہ کہ ریاست خود مختار ہونی چاہیے۔ بیرونی اثرات سے مکمل آزاد ہوکر ہی ڈھنگ سے کام کیا جاسکتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ آئین اور ریاستی ڈھانچا بہت حد تک قابل قبول ہے۔ قوانین پر چند اعتراضات ہیں مگر اس حوالے سے بھی ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے۔ گویا معاملات مذہبی اختلافات سے زیادہ سیاسی اختلافات کا ہے۔

٭ طالبان کی سرکردہ شخصیات کی نظر میں کسی بھی ریاست کا بنیادی فریضہ ثقافتی اور اخلاقی سطح کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ سلامتی یقینی بنائے رکھنے کا ہے۔ ان کی نظر میں سیاسی اور معاشرتی مساوات اور بنیادی حقوق کی پاسداری ریاست کی بنیادی ذمہ داری نہیں۔

٭ بیشتر کی نظر میں انتخابات شرعی اصولوں سے مطابقت نہیں ہیں اور یہ کہ انتخابات بذاتِ خود کوئی مقصد نہیں بلکہ مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے یعنی بہتر اور موافق نتائج برآمد ہونے ہی پر معلوم ہوسکتا ہے کہ انتخابات کی راہ پر گامزن رہنا بہتر آپشن ہے یا نہیں۔

(۔۔۔ جاری ہے!)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*