صلیبی دہشت کا ایک خوفناک دن

اگست کی ۲۴ تاریخ ہے اور مطلع غبار آلود‘ آسمان پر سیاہ بادلوں کے ٹکڑے آہستہ آہستہ جمع ہو رہے ہیں اور تاریکی بڑھتی جاتی ہے‘ یہاں تک کہ دوپہر کے بعد آفتاب نے پھر اپنی صورت نہیں دکھائی۔ شام ہوتی ہے اور چاند طلوع ہوتا ہے لیکن حددرجہ سوگوار و غمگین‘ تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی بادلوں میں اپنا چہرہ چھپا لیتا ہے اور تارے بھی زمین والوں کی طرف سے اپنا منہ موڑ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ ہوا میں تیزی شروع ہوتی ہے اور بڑھتے بڑھتے اس میں ایک کراہ کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ زمین کانپنے لگتی ہے‘ آسمان تھرتھرا اٹھتا ہے اور کائنات کی فضا صرف ان چیخوں سے معمور نظر آتی ہے جو قتل گاہ سان بارتلومیو سے بلند ہوئی تھیں۔

اگست کی یہ تاریخ ہر سال یہی منظر پیش کر رہی ہے اور قیامت تک پیش کرتی رہے گی۔ آپ شاید محسوس نہ کرتے ہوں گے لیکن آیئے مختصراً اس داستان کو سن لیجیے۔ ممکن ہے کہ اس کے بعد میری طرح اس تاریخ کا یہ سوگوار منظر آپ کے دل میں بھی ہمیشہ کے لیے منقوش ہو جائے۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب یورپ میں پروٹسٹنٹ عیسائی مذہب آہستہ آہستہ ترقی پارہا تھا اور کیتھولک عیسائی مذہب کی طرف سے لوگ متنفر ہو رہے تھے یعنی یہ اس وقت کا ذکر ہے جب مذہب کی قدامت پرستی‘ عقلیت پسندی اختیار کرتی جاتی تھی۔ یوں تو یورپ کے تمام ممالک میں اس جدید مسلک کی اشاعت ہو رہی تھی لیکن فرانس کی سرزمین اس کے لیے زیادہ موزوں ثابت ہوئی اور وہاں اس نے بہت جلد کافی بڑی جماعت پیدا کر لی تھی۔ تاہم چونکہ بعض امرا اب تک قدیم کیتھولک مذہب پر قائم تھے‘ اس لیے فضا حد درجہ مکدر تھی اور لوگوں کے دل ایک دوسرے کے خلاف حسد و کینہ سے لبریز نظر آتے تھے۔

شاہِ فرانس ہنری ثانی کا انتقال ہو چکا ہے اور اپنے پیچھے اپنی بیوہ ملکہ کاترین کو چھوڑ گیا ہے اور بیٹے شارل کو۔ کاترین حددرجہ خودسر‘ مغرور و سنگ دل عورت ہے جس نے اپنے چاروں طرف ملک کے قوی نوجوانوں کو جمع کر کے عنانِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اور اس کو جس طرف چاہتی ہے حرکت دیتی ہے۔ ہرچند ہنری کے بعد اس کا بیٹا شارل ہی تخت نشین ہوا تھا لیکن کاترین نے اس کو اس درجہ لہو و لعب میں ڈال دیا تھا کہ اسے مطلق خبر نہ تھی کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور خود ہی جو چاہتی تھی کرتی تھی۔

یہ وہ وقت تھا جب پروٹسٹنٹ مذہب وہاں غیرمعمولی ترقی کر رہا تھا اور بڑے بڑے امرا اس کو اختیار کر چکے تھے تاہم چونکہ کیتھولک مذہب کے پیرو بھی کم نہ تھے اور بعض امرا ہنوز اس قدیم مسلک پر قائم تھے اس لیے ایک عجیب قسم کی خوفناک فضا اس ملک میں پیدا ہو گئی تھی اور نہیں کہا جاسکتا تھا کہ اس تصادم کا نتیجہ کیا ہو گا۔

کیتھولک مذہب کا سب سے بڑا حامی ڈیوک دی چیز تھا جو ملک کے نہایت مقرب حاشیہ نشینوں میں سے تھا اور کسی وقت اس سے علیحدہ نہ ہوتا تھا۔ اول تو ملکہ خود کیتھولک مذہب رکھتی تھی دوسرے دی چیز کی معیت‘ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پروٹسٹنٹ جماعت کے سخت مخالف ہو گئی اور ایسی آتشِ انتقام اس کے دل میں بھڑک اٹھی کہ وہ ہر وقت بے چین رہنے لگی۔ پھر چونکہ پروٹسٹنٹ امرا کی بھی جماعت کافی تھی اور اس میں کولینی اور دی کوندا ایسے صاحبِ اقتدار امرا بھی شامل تھے‘ اس لیے وہ کھلم کھلا مخالفت بھی نہ کر سکتی تھی اور دونوں جماعتوں کے ساتھ بظاہر یکساں سلوک مناسب خیال کرتی تھی لیکن حقیقتاً وہ انگاروں پر لوٹ رہی تھی اور ہر وقت اسی فکر میں لگی رہتی تھی کہ پروٹسٹنٹ کافروں سے کیونکر ملک کو پاک کرے۔

اسی دوران میں ہنری دی نافار نے جو پروٹسٹنٹ جماعت کا سب سے بڑا سردار تھا‘ ملکہ کاترین کی بیٹی کے لیے پیغام بھیجا اور اس نے پسند کر کے ۲۱ اگست ۱۵۷۲ء تاریخ عقد مقرر کر دی۔ کاترین چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی کی یہ شادی اس اہتمام سے ہو کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہ ملے اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخ ان واقعات کا اعادہ کر ہی نہیں سکتی جو اس شادی کے پردے میں ظاہر ہوئے۔ محافلِ نشاط کے انتظامات ہو رہے تھے‘ دعوتوں اور تفریحوں کے پروگرام تیار کیے جارہے تھے اور درپردہ وہ سب کچھ ہو رہا تھا جس نے اگست کی ۲۴ تاریخ کو ابدالآباد کے لیے غیرفانی بنا دیا۔

کاترین نے اپنے تمام مقرب امرا اور ارکان حرب کو پوشیدہ طور پر طلب کیا اور پروٹسٹنٹ جماعت سے انتقام لینے کی اسکیم پیش کی۔ جس کو سن کر سب کے دل کانپ گئے اور اس کے بیٹے شارل نے تو صاف انکار کر دیا لیکن کاترین کی چالیں ایسی نہ تھیں کہ شارل کا انکار یا امرا کا پس و پیش قائم رہتا۔ آخرکار سب کو اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا پڑا اور نکاح کے بعد تیسری رات یعنی اگست کی ۲۴ تاریخ اس کام کے لیے تجویز کی گئی۔

۲۳ اگست کو کاترین کے ساتھیوں نے کام شروع کر دیا۔ یعنی غروبِ آفتاب سے قبل شہر کے ان تمام مکانات پر جن میں پروٹسٹنٹ رہتے تھے‘ مخصوص نشانات بنا دیے تاکہ کیتھولک جماعت کے مکانات سے وہ نمایاں طور پر الگ پہچان لیے جائیں۔

۲۴ اگست کی رات ہے اور پیرس بقعۂ نور ہو رہا ہے۔ تمام پروٹسٹنٹ شرفا و امرا شاہی دعوت میں شریک ہیں اور ہر چہار طرف ہنگامۂ رقص و سرود برپا ہے۔ دفعتہ ملکہ کاترین کوئی عذر کر کے چلی جاتی ہے اور اندر کے ہال میں خفیہ طور پر اپنے ساتھیوں کو طلب کر کے پوچھتی ہے کہ ’’کیا تم سب تیار ہو؟‘‘ اس کے بعد وہ ڈیوک دی چیز سے مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ: ’’میں چند منٹ کے بعد پیرس کی گلیوں کی سیر کرنے کے لیے اپنے قصر سے باہر نکلوں گی‘ میں چاہتی ہوں کہ میری یہ چہل قدمی ایسی جوئے خون میں ہو جہاں میں کم از کم زانو تک تو غرق ہو جاؤں‘‘۔

یہ سن کر سب نے سرِ اطاعت خم کر دیا اور وہ یہ کہہ کر کہ ’’ہاں اب وقت آگیا ہے تیار ہو جاؤ‘‘ مسکراتی ہوئی پھر اس محفلِ طرب میں آگئی جہاں سے وہ گئی تھی۔

نصف شب ہو چکی ہے اور بزمِ رقص و سرود انتہائی نقطۂ تکمیل تک پہنچ گئی ہے کہ دفعتہً گرجاؤں سے ناقوس کی آواز بلند ہوتی ہے۔ یہ علامت تھی اس بات کی خدا اور مذہب کے نام پر اب خونریزی شروع کر دینی چاہیے۔ یہ آواز ہنوز فضا میں گونجتی ہوتی ہے کہ قتلِ عام شروع ہو جاتا ہے۔ بزمِ شادی میں شریک ہونے والے تمام پروٹسٹنٹ امرا دفعتہً محصور کر لیے جاتے ہیں اور جو محفل اس سے پہلے صرف نغمہ و رقص اور ہنگامۂ نوشہ نوش کے لیے وقف تھی‘ اب وہاں خون کے فوارے جاری تھے‘ لاشے ہر چہار طرف تڑپ رہے تھے اور ہر جام بلوریں بجائے شراب کے اب لہو سے لبریز نظر آتا تھا۔ ٹھیک اسی وقت جب قصرِ شاہی کے اندر یہ خونی کھیل کھیلا جارہا تھا‘ شہر کے ہر گوشے سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے اور کیتھولک جماعت پروٹسٹنٹ آبادی کے قتلِ عام میں مصروف تھی۔ نہ بچہ کی تمیز تھی نہ عورت کی‘ نہ بیمار پر رحم تھا نہ ضعیف پر۔ مذہب کا خون آشام دیوتا بپھرا ہوا تھا اور انسانی جان کی قربانیوں پر قربانیاں طلب کر رہا تھا۔ وہ خون کا پیاسا تھا اور کسی طرح اس کی پیاس نہ بجھتی تھی۔ معصوم بچے ماؤں کی گود سے چھین چھین کر آگ میں ڈالے جارہے تھے اور ان کے نرم نرم گوشت کے جلنے سے جو بو پھیل رہی تھی اس کو سونگھ سونگھ کر یہ دیوتا خوش ہو رہا تھا۔ حسین عورتوں کو برہنہ کر کے ان کا جسم نیزوں سے چھلنی کیا جاتا تھا اور ان کی چیخیں سن سن کر یہ خونخوار دیوتا ناچ رہا تھا۔

یہی وقت تھا اور یہی اس کا خونی منظر کہ کاترین اپنے موکب شاہانہ کے ساتھ مسکراتی ہوئی قصر سے باہر نکلی تاکہ وہ لاشوں کو تڑپتے دیکھے اور خوش ہو‘ مکانوں کو جلتے ہوئے دیکھے اور مسرور ہو۔ وہ خراماں خراماں چلی جارہی تھی کہ راستے میں ایک لاش سے ٹھوکر کھا کر گری اور اس کے گھٹنے خون آلود ہو گئے۔ لوگوں نے اسے فوراً سنبھالا اور وہ پھر آگے روانہ ہو گئی‘ کچھ دور چل کر اسے ایک کیتھولک سردار ملا جو خون آلود تلوار لیے ہوئے سر سے پاؤں تک لہو میں شرابور تھا‘ وہ اسے دیکھ کر بے اختیار ہنس پڑی اور بولی کہ ’’شکار کی خبریں سناؤ‘‘ اس نے کہا: ’’اب تلواریں نیام میں ہیں اور لاشے میدان میں‘‘۔

اس نے اٹھلاتے ہوئے کہا کہ ’’میری تمنا تو یہ تھی کہ گلیوں میں کم از کم گھٹنے گھٹنے تو خون نظر آتا‘‘ سردار نے ملکہ کے خون آلود گھٹنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ ’’ملکہ عالم کی یہ خواہش تو پوری ہو گئی‘‘۔

وہ یہ سن کر بے اختیار ہنس پڑی اور رات بھر ہنستی رہی یہاں تک کہ جب ۲۵ اگست کا آفتاب طلوع ہوا تو وہ جاگ رہی تھی اور پروٹسٹنٹ جماعت کا ایک ایک فرد موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو چکا تھا۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’بیدار ڈائجسٹ‘‘ لاہور۔ شمارہ: جولائی ۲۰۰۶ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*