
چاٹگام کے علاقے رؤف آباد کے کوارٹر نمبر ۱۱۱ میں اپنے جواں سال بیٹوں کے ساتھ سکونت پذیر ۵۵ سالہ زینب بی بی نے مارچ ۱۹۷۱ء میں باغیوں کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم کی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’باغیوں نے ۳ مارچ کو جب چاٹگام میں غیر بنگالیوں کے مکانوں پر دھاوا بولا اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع کیا، تب میں نے اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر قریبی جنگل میںپناہ لی اور رات بھر ہم وہیں چھپے رہے۔ ۲۵ مارچ کو قاتلوں کا ایک بڑا جتھا پھر ہمارے علاقے میں آیا اور غیر بنگالیوں کے مکانات پر دھاوا بول دیا۔ یہ حملہ اچانک کیا گیا تھا، اس لیے اس بار ہمیں سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔ میں نے دونوں چھوٹے بیٹوں کو مکان کے پچھواڑے چھپادیا اور اوپر چادر ڈال دی۔ قاتلوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میں بیوہ ہوں اور میرے دو بیٹے ہیں۔ حملہ کرنے سے قبل انہوں نے تمام معلومات حاصل کرلی تھیں۔ انہوں نے ہمارا گھر لوٹ لیا اور باورچی خانے سے چاول تک لے گئے۔ وہ لوگ جب جارہے تھے، تب ان میں سے ایک کی نظر میرے بیٹوں پر پڑگئی۔ انہوں نے دونوں کو گھسیٹ کر باہر نکالا۔ میں نے ان کے آگے ہاتھ جوڑے، پیروں میں پڑ کر التجا کی مگر انہوں نے مجھے لات مار کر ایک طرف ہٹادیا۔ ان پر حیوانیت سوار تھی۔ انہوں نے میرے دونوں بیٹوں کو دیوار سے لگاکر کھڑا کیا اور ان پر گولیاں داغ دیں۔ میں اپنے بیٹوں کی طرف دوڑی تو باغیوں میں سے ایک نے رائفل کا بٹ میرے سر پر مارا جس سے میں بے ہوش ہوگئی۔ جب آنکھ کھلی تو میں نے خود کو اسپتال میں پایا۔ فوج نے مجھے میرے گھر سے نکال کر وہاں تک پہنچایا تھا۔ میں نے اپنے گھر واپس جانے سے انکار کردیا۔ اپنے بیٹوں کی موت کا منظر میری آنکھوں کے سامنے رہتا تھا اور ہر وقت خوفزدہ اور بے تاب رہتی تھی۔ میرے حواس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ ذہنی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ مجھے ایک ریلیف کیمپ منتقل کردیا گیا۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب بھارتی فوج نے سابق مشرقی پاکستان پر قبضہ کیا، تب ایک بار پھر قتل و غارت کا بازار گرم ہوا اور غیر بنگالیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ فروری ۱۹۷۴ء میں مجھے پاکستان منتقل کردیا گیا۔ میں اب خوف کے عالم میں تو نہیں جیتی مگر زندگی میں میری دلچسپی برائے نام بھی نہیں۔ میں بس اُس دن کا انتظار کر رہی ہوں، جب میری ملاقات اپنے خالق اور پرودگار سے ہوگی‘‘۔
۲۵ سالہ حسینہ خاتون کے شوہر محمد یاسین چاٹگام کی امین جوٹ ملز میں ملازم تھے اور ان کی رہائش چاٹگام کے علاقے شولا شہر میں تھی۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں جب باغیوں نے غیر بنگالیوں کے گھروں پر حملے کرکے قتل و غارت کا بازار گرم کیا، تب انہوں نے قریبی جنگل میں چھپ کر جان بچائی۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے سابق مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا، تب باغیوں نے چاٹگام میں ان کے علاقے پر پھر حملہ کیا۔ انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی مگر ان کے پاؤں میں گولی لگی، وہ لڑکھڑا کر گرے۔ جب حسینہ خاتون نے انہیں سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کی تو ان کی چار ماہ کی بچی ان کی گود سے پھسل کر سر کے بل فرش پر جاگری اور کچھ ہی دیر میں چل بسی۔ زخمی شوہر کو ایک طرف بٹھاکر حسینہ خاتون نے گڑھا کھود کر کسی نہ کسی طرح اپنی بیٹی کو دفنادیا۔
حسینہ خاتون نے کراچی پہنچنے پر بتایا: ’’ایک خدا ترس بنگالی کو ہم پر رحم آگیا۔ وہ میرے زخمی شوہر کو لے کر اسپتال پہنچا اور بنگالی ڈاکٹروں سے التجا کی کہ فوری طبی امداد دیں۔ طبی امداد ملنے سے ان کی حالت بہتر ہوگئی۔ میں نے ایک گھر میں نوکری کی اور ساری کمائی شوہر کے علاج پر لگادی۔ ۶فروری ۱۹۷۲ء کو جب میں شوہر سے ملنے اسپتال پہنچی تو مجھے بتایا گیا کہ ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسپتال میں مناسب توجہ اور ادویہ نہ ملنے کے باعث کئی بہاری مریض اور زخمی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے‘‘۔
حسینہ خاتون ۲ سال تک ریلیف کیمپوں میں رہیں اور انہیں فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان منتقل کیا گیا۔
۴۰ سالہ بتولن کے شوہر امین جوٹ ملز میں ملازم تھے اور یہ لوگ ببر ہٹ کے علاقے میں رہتے تھے۔ بتولن نے بتایا: ’’۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو مسلح باغیوں نے ہمیں ہمارے گھروں سے نکال دیا۔ انہوں نے ہمارے مکان کو لوٹ کر آگ لگادی۔ باغیوں نے کہہ دیا کہ بنگال کی سرزمین پر ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں۔ جب ہمارا مکان مکمل طور پر تباہ ہوگیا تو میں نے اپنے شوہر مصطفی اور ننھی بچی کے ساتھ ایک مسجد میں پناہ لی۔ قاتلوں کے ایک اور ٹولے نے اللہ کے گھر پر بھی حملہ کردیا۔ جب وہ درندے میرے شوہر پر قابو پاکر انہیں باندھنے کی کوشش کر رہے تھے، تب میں نے ایک باغی سے گن چھیننے کی کوشش کی جس پر کسی نے تیز دھارے آلے سے مجھ پر حملہ کیا اور میرے بازو سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ وہ قاتل درندے میرے شوہر کو مسجد کے باہر کھڑے ہوئے ایک ٹرک میں ڈال کر ایک سرکاری عمارت میں قائم عقوبت خانے لے گئے۔ یہ عقوبت خانہ غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ میں اپنی بچی کے ساتھ مسجد میں ایک ہفتہ رہی۔ پھر فوج آئی اور اس نے ہمیں ایک ریلیف کیمپ منتقل کیا‘‘۔
بتولن اپنی بیٹی کے ساتھ فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان منتقل ہوئیں۔
۳۰ سالہ زیب النساء نے بتایا کہ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو باغیوں نے ان کا سہاگ اجاڑ دیا۔ ان کی رہائش چاٹگام کے علاقے فیروز شاہ کالونی میں تھی۔ زیب النساء کے شوہر اختر حسین اصفہانی ٹی کمپنی میں کلرک کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ زیب النساء نے تین بچوں کے ساتھ فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان منتقل ہونے پر بتایا: ’’باغی ہماری کالونی پر ۳ مارچ ۱۹۷۱ء سے حملے کر رہے تھے۔ یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہم ہر بار بچ نکلے تھے۔ ہم نے کئی برس کی محنت سے جو کچھ جمع کیا تھا، وہ سب باغیوں نے لوٹ لیا۔ وہ میرے شوہر کو بھی رسیوں سے باندھ کر ٹرک میں ڈال کر لے گئے۔ جنہوں نے بھاگنے کی کوشش کی، انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ باغی میرے شوہر کو ایک عقوبت خانے میں لے گئے جہاں انہیں دیگر غیر بنگالیوں کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جب فوج نے آپریشن کے بعد چاٹگام پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا تو میں نے جیلوں اور عقوبت خانوں میں اپنے شوہر کو تلاش کرنے کی کوشش کی مگر کچھ پتا نہ چلا۔ باغی جن غیر بنگالیوں کو عقوبت خانوں میں قتل کرتے تھے، ان کی لاشیں دریائے کرنافلی میں پھینک دیتے تھے‘‘۔
دو بچوں کے ساتھ فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچنے والی ۴۰ سالہ مہیلہ خاتون نے بتایا: ’’ایک باغی نے جب ۳ مارچ ۱۹۷۴ء کو میرے سامنے میرے شوہر کو ذبح کر ڈالا تو میں ہوش و حواس کھو بیٹھی۔ ہماری رہائش وائر لیس کالونی میں تھی۔ میرے شوہر شیخ امانت کی ملازمت امین جوٹ ملز میں تھی۔ ۳مارچ ۱۹۷۱ء کو باغیوں کے ایک بڑے جتھے نے ہمارے علاقے پر دھاوا بول دیا۔ وائر لیس کالونی میں سکونت پذیر افراد میں واضح اکثریت غیر بنگالیوں کی تھی۔ باغیوں نے سیکڑوں مکانات کو لوٹ کر آگ لگادی۔ جن لوگوں نے جلتے ہوئے مکانوں سے نکل بھاگنے کی کوشش کی، اُن پر گولیاں برسادی گئیں۔ باغیوں نے ہمارے مکان پر بھی حملہ کیا اور ہر قیمتی اور کارآمد چیز لوٹ لی۔ ایک لٹیرے کے ہاتھ میں بڑا سا چاقو تھا جس سے وہ میرے شوہر کو ذبح کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ میں اس پر جھپٹی مگر اس نے میرے سر پر زور سے چاقو کا دستہ مارا جس سے میں گر پڑی۔ پھر انہوں نے میری آنکھوں کے سامنے میرے شوہر کو ذبح کردیا۔ میں یہ منظر دیکھ کر حواس کھو بیٹھی۔ تین ماہ تک مجھ پر غشی کے دورے پڑتے تھے۔ پاکستانی فوج نے مجھے اور میرے بچوں کو سردار بہادر اسکول میں قائم ریلیف کیمپ منتقل کیا‘‘۔
چاٹگام کی فیروز شاہ کالونی میں سکونت پذیر ۳۰ سالہ حمیدہ کہتی ہیں: ’’باغیوں نے ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء کو ہمارے علاقے پر حملہ کیا اور علاقے کی مرکزی مسجد میں جمع ہونے والے تمام غیر بنگالی مردوں کو قطار بند کرکے مشین گنوں سے گولیاں برساکر موت کے گھاٹ اتار دیا‘‘۔
حمیدہ کے شوہر چاٹگام میں ایسٹ پاکستان ریلوے کے ملازم تھے۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں پاکستان منتقل ہونے پر حمیدہ نے بتایا: ’’شرپسندوں کے ایک بڑے ٹولے نے ۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو ہمارے علاقے پر حملہ کیا۔ انہوں نے سیکڑوں مکانات کا قیمتی و کارآمد سامان لوٹنے کے بعد ان مکانات کو آگ لگادی۔ شر پسندوں نے ہمارے گھر کو بھی لوٹ کر آگ لگائی۔ ہم نے بھاگ کر قریبی مسجد میں پناہ لی۔ بہت سے دوسرے خوفزدہ غیر بنگالی گھرانوں نے بھی مسجد میں پناہ لی ہوئی تھی۔ جو کچھ دیر پہلے تک ہنستی گاتی بستی تھی، ہم رات کو اس سے شعلے بلند ہوتے اور دھویں کے بادل اٹھتے دیکھتے رہے‘‘۔
۲۴ مارچ کو ۵۰ مسلح باغی ٹرک میں سوار ہوکر آئے اور مسجد میں داخل ہوکر انہوں نے تمام غیر بنگالی مردوں سے کہا کہ وہ مسجد کے صحن میں جمع ہوجائیں۔ جنہوں نے بھاگنے کی کوشش کی انہیں اسی وقت گولیوں سے بھون دیا گیا۔ تمام غیر بنگالی مردوں کو انہوں نے دیوار سے متصل کھڑا کرکے گولیاں مار دیں۔ اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ کوئی بھی غیر بنگالی مرد زندہ نہ بچے، باغی مسجد میں دو گھنٹے تک رہے۔ ہم عورتوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے پیاروں کی لاشوں کو ہاتھ نہ لگائیں۔ جب میں نے اپنے شوہر کے سینے سے خون کا فوارہ چھوٹتے دیکھا تو ہوش کھو بیٹھی۔ ہم سب تین دن کے بعد اپنے لُٹے اور جلے ہوئے گھروں میں داخل ہوسکے۔ پھر فوج نے ہمیں ریلیف کیمپ منتقل کیا‘‘۔
۳۷ سالہ مبینہ خاتون چاٹگام کے علاقے پہاڑ ٹلی کی جوٹلہ کالونی میں رہتی تھیں۔ ان کے شوہر عزیز الرحمن ایک سرکاری ورکشاپ میں فٹر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں چاٹگام میں غیر بنگالیوں پر جو قیامت ڈھائی گئی، اُس سے یہ لوگ کسی نہ کسی طور بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ مبینہ خاتون کے بھائی، بھابی اور بچوں کو دیناج پور میں ان کے گھر میں شہید کرنے کے بعد ان کی لاشیں جلادی گئی تھیں۔ مارچ ۱۹۷۱ء ہی میں مبینہ کے شوہر کے بھائیوں کو میمن سنگھ اور چاٹگام کے علاقے کالر گھاٹ میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ باغیوں نے مبینہ کی مانگ جنوری ۱۹۷۲ء میں اجاڑی، جب غیر بنگالیوں پر ایک بار پھر قیامت ڈھائی جارہی تھی۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں پاکستان منتقلی پر مبینہ خاتون نے بتایا: ’’۸ جنوری ۱۹۷۲ء کو میرے شوہر بیمار تھے۔ وہ اسپتال جانے کے لیے گھر سے نکلے۔ مگر مکتی باہنی والوں کے ایک ٹولے نے، جو گھات لگاکر بیٹھا تھا، انہیں راستے ہی میں پکڑ کر اُن کے سینے میں گولیاں داغ دیں۔ جب میرے شوہر خاصا وقت گزرنے پر بھی گھر نہ آئے تو میں رات کو ان کی تلاش میں نکلی۔ چند بنگالی ہمارے جاننے والے تھے، انہوں نے بتایا کہ ایک فرلانگ دور انہوں نے گڑھے میں ایک لاش دیکھی ہے۔ میں نے ان کے ساتھ جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ گڑھے میں میرے شوہر کی خون آلود لاش تھی۔ شوہر کی لاش دیکھ کر میری تو ایسی حالت ہوگئی جیسے میری اپنی لاش پڑی ہو۔ میں اگر زندہ رہی تو صرف اپنے بچوں کی خاطر‘‘۔
۳۵ سالہ سنجیدہ خاتون کے شوہر چاٹگام میں ایک الیکٹرک سپلائی آفس میں کام کرتے تھے۔ ان کی رہائش چاٹگام ہی کے علاقے حالی شہر میں تھی۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں کراچی منتقل ہونے پر سنجیدہ خاتون نے مارچ ۱۹۷۱ء میں باغیوں کے ہاتھوں اپنے شوہر کے قتل اور دیگر مصائب کی بپتا سُنائی: ’’باغیوں نے ۳مارچ ۱۹۷۱ء کو غیر بنگالیوںکی بستیوں پر جو قیامت ڈھائی اس سے بچنے کے لیے ڈھائی سو سے زائد غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں نے احاطے والی ایک بڑی عمارت میں پناہ لی۔ اس عمارت میں مَیں، میرے شوہر اور تینوں بچے بھی تھے۔ ہمارے گھروں کو باغیوں نے لوٹ کر آگ لگادی تھی‘‘۔
’’۲۷ مارچ ۱۹۷۱ء کو ۵۰۰ سے زائد مسلح باغیوں نے اس عمارت پر حملہ کردیا، جس میں ہم نے پناہ لے رکھی تھی۔ ان میں سے بہتوں کے پاس مشین گنیں تھیں۔ انہوں نے تمام مردوں سے کہا کہ اگر وہ اپنی عورتوں اور بچوں کی زندگی چاہتے ہیں تو عمارت کے احاطے میں جمع ہوجائیں۔ تمام مردوں نے بچوں کو پیار کیا اور ماؤں، بہنوں اور بیویوں کو الوداع کہتے ہوئے حکم کی تعمیل کی۔ دس منٹ کے اندر ان تمام غیر بنگالی مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا‘‘۔
’’قاتلوں کا ٹولا ہمیں اسلحے کی نوک پر ایک ایسے گودام میں لے گیا جو غلاظت سے اٹا ہوا تھا۔ وہاں پینے کا پانی تک میسر نہ تھا۔ اور مانگنے پر بھی پانی نہیں دیا گیا۔ بچوں کا بھوک سے برا حال تھا۔ ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ تھا۔ شوہر کی موت کے غم نے مجھ میں زندہ رہنے کی امنگ ختم کردی تھی۔ ایک بنگالی گارڈ کو میں نے یہ بھی کہتے سُنا کہ اگلی صبح ہم سب کو زندہ جلا دیا جائے گا۔ قاتلوں نے گودام کو نذرِ آتش کرنے کے لیے مٹی کے تیل سے بھرے ہوئے ڈبوں کا اہتمام بھی کر رکھا تھا۔ رات کو میں نے اپنے ایک بچے کو کھڑکی سے نیچے پھینکا اور اس سے کہا کہ وہ گودام کے دروازے کی کنڈی کھول دے۔ بنگالی گارڈز وہاں نہیں تھے۔ فوج نے آپریشن شروع کردیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ باغیوں نے گارڈز کو بھی فوج کی پیش قدمی روکنے پر لگا رکھا تھا۔ فرار کی ہماری کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ہم سب نکل کر تیزی سے مرکزی اسپتال پہنچے جو فوج کے کنٹرول میں تھا۔ ہم میں سے بہت سی عورتوں کی ساڑھیاں فرار کی کوشش کے دوران پھٹ کر تار تار ہوچکی تھیں اور اسپتال پہنچنے تک ہم میں سے کئی عورتیں انتہائی شرمناک اور قابلِ رحم حالت میں تھیں۔ فوجیوں نے ہمیں لباس دیا اور کئی عورتوں کو ریلیف کیمپ منتقل کیا۔ باقی عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ ان رشتہ داروں کے ہاں چلی گئیں جو قتلِ عام سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے تھے‘‘۔
عینی شاہدین نے ۲۷ مارچ ۱۹۷۱ء کو عثمانیہ گلاس ورکس میں اور مارچ اور اپریل کے دوران چاٹگام کی حافظ جوٹ ملز اور اصفہانی جوٹ ملز میں غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی دل دہلانے اور خون کے آنسو رلانے والی داستانیں سُنائیں۔ ببر ہٹ کی امین جوٹ ملز میں عملے کے افراد اور ان کے اہل خانہ پر مشتمل کم و بیش دو ہزار غیر بنگالیوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ عثمانیہ گلاس ورکس میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے پورے اسٹاف کو شہید کردیا گیا۔ حافظ جوٹ ملز میں جنونی باغیوں نے غیر بنگالی مالک کے مکان کو لوٹ کر آگ لگادی۔ انہوں نے ۱۵۰ غیر بنگالی اسٹاف ممبران اور ان کے اہل خانہ کو بھی شہید کیا۔ اصفہانی جوٹ ملز میں چند ایک غیر بنگالی ہی موت کے منہ میں جانے سے بچے تھے۔ فوج کو اس ملز کے ری کری ایشن کلب میں غیر بنگالی ملازمین کی لاشوںکے ڈھیر ملے۔ موت کے گھاٹ اتارنے سے قبل ان کے جسم سے خون نچوڑ لیا گیا تھا۔
مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران چاٹگام ڈویژن کے بہت سے دوسرے علاقوں میں بھی باغیوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور نظیر ہٹ، انوارا، دوہازاری، کمیرا اور ہاٹھازاری میں سیکڑوں غیر بنگالی مردوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے مکانات کو لوٹ کر آگ لگادی۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے وسط میں جب ان علاقوں میں کشیدگی پھیلی تو بہت سے خاندان چاٹگام منتقل ہوگئے۔ ان کے مکانات بھی لوٹ لیے گئے۔ کاکسس بازار میں بھی بہت سے غیر بنگالیوں کو قتل کرکے ان کی املاک لوٹ لی گئیں۔
چندرا گھونا اور رنگامتی میں قتلِ عام
۳۵ سالہ وجیہ النساء کے شوہر مقصود عالم سینٹرل ایکسائز ڈپارٹمنٹ، چندرا گھونا میں تعینات تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں اپنے علاقے کے غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارے جانے کا احوال بیان کرتے ہوئے وجیہ النساء نے بتایا: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے دوسرے ہفتے میں عوامی لیگ کے غنڈے ہمارے علاقے میں آئے اور ہمیں یقین دلایا کہ اگر ہم ہتھیار ڈال دیں تو ہمیں اور ہمارے گھروں کو کوئی ہاتھ بھی نہ لگائے گا۔ میرے شوہر اچھے نشانہ باز تھے مگر انہوں نے بھی عوامی لیگ والوں کی بات پر بھروسا کرتے ہوئے اپنی گن ان کے حوالے کردی‘‘۔
’’مارچ کے تیسرے ہفتے میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے غیر بنگالیوں کو ڈرانا دھمکانا اور ان سے پیسے اینٹھنا شروع کردیے تھے۔ فرار کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ کے چند مسلح کارکن ہمارے گھر پہنچے اور میرے شوہر کو ان کے آفس تک چلنے کے لیے کہا۔ میں سمجھ گئی کہ وہ انہیں قتل کرنے کے لیے لے جارہے ہیں۔ ۲۷ مارچ کو عوامی لیگ کے کارکن پھر آئے اور میرے دیوروں سے کہا کہ رنگامتی کے ڈپٹی کمشنر نے اُن کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے انہیں اپنے دفتر میں بلایا ہے۔ جب ہم لوگ جانے کی تیاری کر رہے تھے تب انہوں نے گن پوائنٹ پر مجھ سے رکنے کو کہا۔ میرے تینوں دیوروں کو وہ رسیوں سے باندھنے کے بعد ٹرک میں ڈال کر لے گئے۔ اسی سہ پہر جنونی باغیوں کا ایک اور ٹولا آیا اور ہمارے مکانات کو لوٹ کر آگ لگادی۔ تمام غیر بنگالی مردوں کو انہوں نے پہلے ہی اغوا کرلیا تھا۔ بچوں اور عورتوں سے ایک قریبی عمارت تک چلنے کو کہا گیا۔ وہاں ہم پندرہ دن رہے۔ اس دوران خوراک کی شدید قلت تھی۔ ہم اللہ سے دعا کرتے رہے کہ کسی طرح اس جہنم سے نجات ملے‘‘۔
’’ہماری دعائیں مستجاب ہوئیں۔ ہمیں مغوی بنانے والوں نے ۱۳؍اپریل کو سُنا کہ پاکستانی فوج کے دستے چندرا گھونا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مسلح باغیوں نے ہمیں قطار بند ہونے کا حکم دیا۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ ہم سب کو شہید کرنا چاہتے ہیں۔ ہم میں سے چند ایک نے بھاگنے کی کوشش کی اور وہاں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ابھی یہ سب چل ہی رہا تھا کہ اچانک ہمارے کمپاؤنڈ کے نزدیک گولہ آکر گرا اور پھٹ گیا۔ باغیوں کو فوراً اندازہ ہوگیا کہ فوج نے کارروائی شروع کردی ہے۔ چند ہی لمحوں میں ہمیں فوج کے دستے آتے دکھائی دیے۔ انہیں آتا دیکھ کر باغی انتہائی خوفزدہ ہوئے اور اسی طرح بھاگ لیے جس طرح بلی کو دیکھ کر چوہے بھاگ جاتے ہیں۔ پاکستانی فوجیوں نے ہمیں خوراک اور پانی دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے چندرا گھونا کے ایک اور کمپاؤنڈ میں یرغمال بناکر رکھے گئے ۲۰۰ غیر بنگالی بچوں اور عورتوں کو بھی آزاد کرایا۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ چندرا گھونا کے مختلف علاقوں سے جتنے بھی غیر بنگالی مردوں کو اغوا کیا گیا تھا، انہیں باغیوں نے قتل کرکے دریائے کرنافلی میں پھینک دیا‘‘۔
’’فوج نے ہمیں چاٹگام کے ایک ریلیف کیمپ میں پہنچایا۔ دسمبر ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں جب بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے چاٹگام پر قبضہ کرلیا تو ایک بار پھر غیر بنگالیوں کے قتلِ عام کا بازار گرم ہوا۔ میری بچی شدید سردی کے باعث بیمار پڑی تو کوئی بھی اسپتال بہاری بچی کے علاج پر آمادہ نہ ہوا۔ میری بچی نے میرے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔ میں نے ریڈکراس کے کیمپ میں پناہ لی اور فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچی‘‘۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ باغیوں نے اپریل ۱۹۷۱ء میں کرنافلی پیپر ملز اور ریان ملز کو لوٹنے کے بعد اس کے غیر بنگالی اسٹاف کو ان کے اہل خانہ سمیت قتل کردیا۔ چند ہی افراد قتلِ عام سے بچ سکے۔ غیر بنگالی مردوں کے قتلِ عام کے بعد ان کی بہت سی کم عمر بہنوں اور بیٹیوں کو اغوا کرکے ہوس کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں عقوبت خانوں میں قتل کردیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران چندرا گھونا میں پانچ ہزار غیر بنگالی مردوں کو قتل کیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے بحران پر اگست ۱۹۷۱ء میں جاری کیے جانے والے قرطاسِ ابیض میں بتائے گئے اعداد و شمار ۳ ہزار تھے۔ ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے کرنافلی پیپر ملز اور ریان ملز سے ساری نقدی لوٹ لی اور چند سینئر اسٹاف ممبران سے خطیر رقوم تاوان کے طور پر وصول کرنے کے بعد ہی اُن کی جاں بخشی کی۔
رنگامتی
چاٹگام کے پہاڑی سلسلے دامن میں واقع رنگامتی انتہائی خوبصورت علاقہ ہے۔ دریائے کرنافلی کے کنارے آباد اس شہر کا چاٹگام سے فاصلہ ۴۵ کلومیٹر ہے۔ مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ کی بغاوت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شورش نے اس شہر کو بھی لپیٹ میں لیا اور یہاں بھی سیکڑوں غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ باغیوں نے مارچ میں تمام غیر بنگالیوں کو پکڑ کر فوج کے آنے سے پہلے ہی قتل کردیا۔ رنگامتی کا سرکٹ ہاؤس ایک دل کش عمارت میں واقع تھا۔ اس عمارت کی خوبصورتی سیاحوں کو کھینچ لاتی تھی۔ اس عمارت کو باغیوں نے غیر بنگالیوں کے قتلِ عام کے سلسلے میں اپنے آپریشنل ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کیا۔
۳۴ سالہ عابد حسین کرنافلی پیپر ملز اور ریان ملز دونوں میں ملازم تھے۔ ملز سے انہیں کوارٹر نہیں ملا تھا، اس لیے وہ اہلیہ کے ساتھ کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے۔ عابد حسین فروری ۱۹۷۴ء میں اہلیہ کے ساتھ کراچی پہنچے۔ انہوں نے بتایا: ’’کرنافلی پیپر اینڈ ریان ملز میں حالات خراب ہونے کی ابتدا ۸ مارچ ۱۹۷۱ء کو ہوئی جب عوامی لیگ کے کارکنوں نے بنگالی ملازمین کو غیر بنگالی ملازمین کے قتل پر اکسایا۔ ہم نے معاملہ فوراً بھانپ لیا اور ایک خدا ترس و قابل اعتماد بنگالی دوست کے ہاں پناہ لی۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران باغی رنگامتی کے تمام غیر بنگالیوں کو دھمکاتے اور خوفزدہ کرتے رہے۔ اپریل میں انہوں نے غیر بنگالیوں کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا۔ فوج کی آمد اور بھرپور کارروائی تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ لوگوں کو گن پوائنٹ پر عقوبت خانوں میں لے جاکر موت کے منہ میں دھکیلنے کا سلسلہ جاری رہا۔ میں نے جس دوست کے ہاں پناہ لی تھی، وہ چاٹگام میں رہتا تھا۔ جب فوج نے باغیوں کو شکست دے کر چاٹگام، چندرا گھونا اور رنگامتی کا کنٹرول حاصل کرلیا، تب میں رنگامتی گیا مگر وہاں چند ہی غیر بنگالی بچے تھے‘‘۔
رنگامتی میں آباد بہت سے غیر بنگالیوں نے عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں سے بچنے کے لیے چکمہ قبائلیوں کے ہاں پناہ لی۔ بعد میں جب فوج نے رنگامتی کا کنٹرول سنبھال لیا، تب یہ لوگ اپنے گھروں میں واپس پہنچے۔
دریائے کرنافلی میں پھینکی جانے والی غیر بنگالیوں کی لاشیں خلیجِ بنگال میں جا گرتی تھیں۔ غیر ملکی جہازوں پر سوار مسافروں اور عملے کے ارکان نے بتایا کہ انہوں نے بہت سی لاشیں دیکھیں۔
Leave a Reply