گذشتہ ماہ ہم تہذیبوں کے مابین پرخلوص مکالمہ کی تحسین کر چکے ہیں بشرطیکہ دونوں طرف سے یہ آمادگی ہو کہ باہمی روابط کی اصلاح ہو سکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ ہر تہذیب کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ ہر تہذیب کی انفرادیت اور اس کے شعائر کی قدر و قیمت پہچانی جائے۔ مادی وسائل کو کسی بھی تہذیب کی بالاتری کا معیار نہ بنایا جائے۔ تاریخ انسانی کے نشیب و فراز نے ہم کو یہ سبق دیا ہے کہ وسائل کسی بھی تہذیب کی ملکیت نہیں ہیں کہ ہمیشہ ایک خاص تہذیب کا دوامی حق رہے ہوں۔ یہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ کسی دور میں قوت اور اس سے پیدا ہونے والا تزک و احتشام کسی ایک تہذیب کا مقدر رہا ہے اور کبھی کسی دوسری تہذیب کا۔ اگر دیدۂ بصیرت ہو تو ماضی قریب میں برطانیہ کی قوت اور اس کے غلبہ کی داستان کا تجزیہ کر لیا جائے کہ کس طرح اس کے دائرۂ اقتدار میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ دنیا کی بیشتر سلطنتیں اس کی محکوم تھیں۔ مادی وسائل ہند و چین کے دور دراز ممالک سے کھینچ کر انگلستان کی طرف منتقل ہوتے تھے۔ ہم نے ہندوستان کی عظیم الشان سلطنت اور شرق اوسط کا اقتدار اس کے ہاتھوں میں تباہ و برباد ہوتے دیکھا ہے۔ مگر یہ منظر کتنے دنوں تک باقی رہا؟ رفتہ رفتہ مادی وسائل اس تہذیب سے منتقل ہوتے گئے یہاں تک کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا افق عالم پر نمودار ہو گیا۔ اسی دور تاریخ میں روس کی وہ عظیم الشان اور طاقتور تہذیب ابھری کہ دنیا لرزہ براندام ہو گئی۔
اس مختصر دورِ تاریخ سے ہم سب کو اور بالخصوص امریکا کو یہ سبق لینا چاہیے کہ تہذیبوں کی حقیقی زندگی مادی وسائل سے مستعار نہیں ہوتی۔ نہ عسکری اقتدار اور مادی دولت فی نفسہٖ انسانیت عامہ کے لیے ایک نفع بخش سوتے ہیں کہ وہ کسی مخصوص تہذیب کی زندگی کی ضمانت دے سکیں‘ نہ کسی تہذیب کی ظاہری شان و شوکت اور اس کا مادی تزک و احتشام اس امر کا قطعی ثبوت بن سکتے ہیں کہ وہ مخصوص تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسانیت عامہ کے لیے نفع بخش ہے اور نہ ہی وہ اس امر کا ثبوت بن سکتے ہیں کہ ان کو انسانیت کی فلاح و بہبود کی شاہراہ کا علم ہے۔
اس وقت مغرب کی تہذیب کو یہی غرہ ہے کہ اسے وہ راستہ معلوم ہے جو انسانیت کی دائمی فلاح کا ضامن ہے جو امیر و غریب‘ کالے‘ گورے‘ دور اور قریب سب کی دائمی اور مسلسل رفعت کے راز کا محرم ہے‘ اسے اس علم کی شاہ کلید حاصل ہے جو فطرت کے سربستہ راز کھولتا ہے اور قدرت کے خزانے دست تصرف میں لاسکتا ہے۔ اپنی اس خصوصیت کی وجہ سے اس نے ایسا نظامِ حیات تراشا ہے‘ ایسی اقدار وضع کی ہیں‘ ایسے گُر خود سیکھے ہیں اور دوسروں کو سکھانا چاہتا ہے جن سے وہ مسرت اور انبساط سے ہم آہنگ ہو سکے۔ دنیا سے فقر و فاقہ‘ مرض و افلاس کا ازالہ ہو سکے۔ جبر و ظلم مٹ جائیں اور عدل و انصاف کا دور دورہ ہو۔ اس غرور کے سوتے آہن و فولاد سے پھوٹتے ہیں۔ اس کی آبیاری سونے اور چاندی کے سکے گرتے ہیں۔ آلات کی افزائش اور رنگ و آہنگ نے اس غرور کو مرحلہ وار ایسی بلندی پر پہنچا دیا ہے کہ متبادل تہذیبیں حقیر اور بے مایہ نظر آتی ہیں۔
تہذیب مغرب نے دورِ حاضر کے انسان کو صرف ایک وسیلہ بنا دیا ہے اس کی ساخت اور مادی کاری گری کو اس نے اپنی غایت اولی بنا لیا ہے۔ اس تہذیب نے انسان کو یہ تمکنت بخش دی ہے کہ وہ خدا کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ وہ یہ سمجھنے لگا ہے کہ انسان اکیلا کھڑا بھی ہو سکتا ہے اور حسبِ منشا پیش قدمی بھی کر سکتا ہے۔ Man can stand alone اس کا نعرہ بن چکا ہے۔ اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ آفات ارضی اور سماوی پر اسے جو قدرت حاصل ہے اور آئندہ مزید حاصل ہو سکتی ہے‘ اس نے اس کو نصرتِ خداوندی سے بڑی حد تک بے نیاز کر دیا ہے اور مستقبل میں مزید بے نیاز کر دے گی۔
یہی غرور اور استکبار ہے جس نے باہمی مکالمہ کی وہ تمام راہیں مسدود کر دی ہیں جن میں یہ شعور ہو کہ تہذیب مغرب میں خوبیاں بھی ہیں اور کمزوریاں بھی۔ ان دونوں کے ادراک سے ہی تہذیبوں کے درمیان باہمی مکالمہ کارآمد ہو سکتا ہے‘ تاریخ انسانی تہذیبوں کے درمیان باہمی تعامل سے معمور رہی ہے‘ غالب تہذیب نے جہاں دوسری تہذیبوں کو کچھ سکھایا ہے‘ وہیں ان سے سیکھا بھی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ مغرب جدید پر قوت اور اقتدار کا ایسا نشہ طاری ہو گیا ہے کہ وہ خود کو خیر ہی خیر سمجھتا ہے۔ اس کی نظر میں بقیہ سب کچھ شر اور فساد ہے۔ لہٰذا ضعیف اور مغلوب تہذیبوں کو مغرب کی غالب تہذیب سے ہم آہنگ ہونا چاہیے‘ یہی وہ بات ہے جس کا اعلان بعض دانشوروں نے روس کے انہدام کے بعد کیا تھا کہ اشتراکی نظام کا انہدام درحقیقت تاریخ کے اختتام (End of history) سے عبارت ہے۔ اس میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ انسانیت کی معراج صرف سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی سے وابستہ ہے۔ یہی وہ شاہراہ ہے جو عامۃ الناس کی دائمی ترقی تک لے جاتی ہے یہی نشہ اس پر اب بھی طاری ہے‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب اور اس کے نمائندہ امریکا نے دنیا کے حقیقی مسائل پیچیدہ بھی کیے ہیں اور سنگین تر بھی بنائے ہیں۔ اس نے دنیا کو غریب اور امیر میں اس طرح تقسیم کیا ہے جس طرح اور جس وسیع پیمانے پر دنیا کبھی بھی تقسیم نہیں ہوئی۔ دنیا کے مادی وسائل کی دو تہائی تعداد پر صرف چند فیصد خواص کا قبضہ ہے۔ ظلم اور ناانصافی سرمایہ دارانہ تہذیب کا شعار ہے جس کا تجربہ خود امیر ممالک کی سرحدوں کے درمیان ہو رہا ہے۔
انسانی خون کا احترام اب صرف اسی وقت ہوتا ہے جبکہ وہ خون مغربی انسان کی شریانوں میں موجزن ہو۔ سیاسی حریت کا حق صرف ان کو حاصل ہے جو مغربی تہذیب کے ہمنوا ہوں۔ یا کم از کم ان کی اتباع کرتے ہوں۔ عورت کا صرف ایسا تصور محترم ہے اور اس کا وہی کردار درخور اعتنا ہے جو اس کو صرف مقابل کی شہوات کا کھلونا بنا دے۔ عدل و انصاف اس تہذیب میں جنس بازار بن چکے ہیں۔ اگر آپ کے پاس قوتِ خرید ہو تو ان سے متمتع ہو سکتے ہیں‘ ورنہ مظلوم ہی رہیں گے۔ یہ اور اسی طرح کے شجر ہائے خبیث ہیں جو مغرب کی تہذیب کے گلیمر میں پوشیدہ ہیں۔
اگر متبادل تہذیبوں کے درمیان مخلصانہ مکالمہ ہوتا تو امریکا اور اس کے حواری اس کا غیرجانبدارانہ تجزیہ کرتے کہ ان کی تہذیب کے کڑوے اور کسیلے پھل کون سے ہیں اور دوسری تہذیبوں کی سیاسی اور عسکری کمزوری کے بالمقابل اقدار اور اصولوں کی وہ کون سی برکات ہیں جن کی اس وقت عالمِ انسانیت اور خود تہذیب مغرب محتاج ہے۔
اگر باہمی مکالمے کی مہم چلانے والوں کو یہ شعور ہوتا کہ خیر ان کے درمیان محصور نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہیں بھی یہ شعور ہوتا کہ باہمی تعامل اور مکالمہ تیغوں کے سائے میں نہیں ہوتا کہ ایک طرف سیاسی لحاظ سے کمزور ممالک اور ان کی تہذیبوں کو تباہ اور برباد کرنے کی دھمکی دی جارہی ہو اور دوسری طرف اس کو دھوکہ اور خیانت کے ہتھیاروں سے مفلوج العمل کیا جارہا ہو۔
امریکا اور اس کے زیرِ سایہ پنپنے والے اقوامِ متحدہ کو اس امر کی تنبیہ کرنا لازم ہے کہ عسکری قوت سے نہ تہذیبوں کو ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ تاریخِ انسانی میں کبھی ایسا ہوا ہے۔ دوسری طرف ان کو نہایت سنجیدگی سے غیرجانبدارانہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ اس وقت دنیا کس مرض کی شکار ہے‘ اس کے اضطراب کی نوعیت کیا ہے؟ اس کا حقیقی مسئلہ کیا ہے؟ کیا اس کی فلاح و بہبود صرف مادی دولت کی افزائش سے وابستہ ہے یا اسے کسی اور علاج کی ضرورت ہے۔
مغرب بالخصوص امریکا کی ہیئت نے متبادل تہذیبوں کی عقل و دانش کو مائوف کرنے کا عمل بھی شروع کر رکھا ہے۔ اس کے گلیمر اور اس کے جھوٹے پروپیگنڈے نے یہ سماں باندھ رکھا ہے کہ علم و دانشوری صرف اس کی تہذیبی حدود میں قید ہے‘ اس سے باہر جو کچھ بھی ہے وہ جہالت ہے‘ ماضی کے باقیات سئیہ ہیں۔ اس نقطۂ نظر کی تائید کے لیے اس نے متبادل تہذیبوں کو کچھ لالچ سے‘ کچھ خوف سے اور کچھ بددیانتی سے اس پر آمادہ کیا ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے گن گائیں اور متبادل تہذیبوں کو اس پر آمادہ کریں کہ وہ آنکھ بند کر کے شعار مغرب کی تقلید کریں۔
اس باہمی مکالمہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اسلام اور اسلامی تہذیب کو اپنا سب سے خطرناک حریف قرار دیتا ہے‘ اسے یہ نظر آتا ہے کہ اگر اصول‘ اقدار اور ثقافت کا کوئی بھی مدمقابل مجموعہ ہے تو وہ اسلام ہے۔ دوسری تہذیبوں کا حال یہ ہے کہ ان میں یہ سکت نہیں پائی جاتی کہ وہ مغرب سے محاذ آرائی پر آمادہ ہوں۔ اس کے برعکس صرف اسلام ہے جو مغرب کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر سامنے کھڑا ہو سکے۔ اس لیے اس کے عقائد‘ اس کی اقدار‘ اس کے نظامِ حیات کو دھونس‘ دھاندلی اور حرص و طمع کے ذریعہ کمزور کر دیا جائے۔ ۱۱ ستمبر سے پہلے بھی یہ محاذ آرائی جاری تھی مگر اس وقت کھلم کھلا ایسا کرنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ اب یہ محاذ آرائی ہمہ جہتی جدوجہد اور علی الاعلان محاذ آرائی میں بدل گئی ہے۔
تہذیبوں کے درمیان مکالمہ کرنے والوں کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دین اسلام کی جڑیں بہت گہرائی سے قلوبِ انسانی میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ اس کو دھوکہ‘ دھونس اور دھاندلی سے اکھاڑ پھینکنا ممکن نہیں۔ دوسری اہم حقیقت یہ ہے کہ اسلام از کار رفتہ نسخہ نہیں ہے بلکہ انسانیت کے دکھوں کا موثر علاج ہے۔ اس کی اپیل دائمی ہے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محض ظاہری شان و شوکت کے ذریعہ اس اپیل کو یکسر مسترد کر سکتے ہیں‘ وہ شدید ترین غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ دوسری اہم حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کی زندگی‘ خداوند قدوس کے بعد‘ انسانوں کی اس عظیم اکثریت کے عشق‘ وارفتگی اور لگن سے مستعار ہے جو اس وقت کرۂ ارض میں پھیلے ہوئے ہیں جن کو نہ سونے چاندی کے سکوں سے خریدا جاسکتا ہے اور نہ خوف اور دہشت اور ظلم و جور سے۔ مکالمہ اگر صحیح نتائج تک پہنچا سکتا ہے تو اس کے لیے اس عظیم انسانیت کے قلوب پر دستک دینی ہو گی‘ جن کے جسم و روح میں یہ دین‘ فطرت ثانی بن کر سما گیا ہے۔
(بشکریہ: ’’زندگی نو‘‘۔ نئی دہلی۔ مئی ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply