
نواکھلی میں دہشت کا راج
نواکھلی میں غیر بنگالیوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زیادہ نہیں تھی مگر وہ مجموعی طور پر بہت اچھے ماحول میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ مقامی بنگالیوں سے ان کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ غیر بنگالیوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان میں سے بہت سے تو کاروباری اداروں میں ملازم تھے۔ چند ایک کی دکانیں تھیں اور وہ بہت اچھی طرح کام کر رہے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے آغاز ہی سے معاملات کی خرابی شروع ہوگئی تھی اور غیر بنگالیوں کو خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ ۲۱ سے ۲۳ مارچ تک بنگالی باغیوں، ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغی سپاہیوں اور انصار نے نواکھلی میں غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نواکھلی میں دو ہزار خواتین اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ باغیوں نے بہت سی غیر بنگالی لڑکیوں کو یرغمال بنایا، ان کی آبرو پامال کی اور بعد میں جب فوج نے شہر کا کنٹرول سنبھالا، تب پسپائی اختیار کرتے ہوئے اُن بدنصیب لڑکیوں میں سے بیشتر کو قتل کردیا۔
ایسٹرن فیڈرل انشورنس کمپنی میں کام کرنے والے ۳۷ سالہ فضل الحق بھی مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران نواکھلی میں غیر بنگالیوں کے قتل عام کے عینی شاہد ہیں۔ ۱۹۶۹ء میں نواکھلی میں تعینات کیے جانے سے قبل تک وہ چاٹگام میں رہے تھے۔ نواکھلی میں وہ اکیلے رہتے تھے۔ ان کے والدین، گھر کے دیگر افراد اور رشتہ دار چاٹگام میں سکونت پذیر تھے۔ فضل الحق نے بتایا: ’’ایسٹرن فیڈرل انشورنس کمپنی کے ایک درجن اردو بولنے والے ملازمین نے نیو روڈ پر ایک فلیٹ کرائے پر لے رکھا تھا۔ ایک فلیٹ میں ایک درجن افراد کا رہنا انتہائی دشوار تھا مگر ہم پھر بھی کسی نہ کسی طرح گزارا کرلیتے تھے۔ بنگالی پڑوسیوں اور دیگر افراد سے ہمارے تعلقات اچھے تھے۔‘‘
’’مارچ ۱۹۷۱ء کے دوسرے ہفتے میں عوامی لیگ نے چند بنگالی نوجوانوں کو کسی جواز کے بغیر اُکسایا اور ان میں غیر بنگالیوں کے لیے شدید نفرت بھر دی۔ ۲۰ مارچ ۱۹۷۱ء کو جب میں دفتر گیا تو میرے بنگالی دوستوں نے خبردار کیا کہ عوامی لیگ غیر بنگالیوں پر حملوں کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ انہوں نے مجھے شام کو گھر یعنی فلیٹ واپس نہ جانے کا مشورہ بھی دیا۔ اسی شام کو میرے علاقے پر مکتی باہنی کے غنڈوں نے حملہ کردیا۔ تین دن تک قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران میں اپنے دفتر کے باتھ روم میں چھپا رہا۔ اس کے بعد میں نے ایک بنگالی دوست کے گھر میں پناہ لی۔ جب میرے علاقے پر حملہ ہوا تو مکتی باہنی کے غنڈوں نے میرے فلیٹ پر بھی حملہ کیا اور میرے ۹ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میری طرح دیگر ۲ساتھیوں کو بھی حملے کی پہلے سے اطلاع مل چکی تھی، اس لیے وہ بچ گئے۔ نواکھلی میں غیر بنگالیوں کی تین چوتھائی آبادی ختم کردی گئی، عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔‘‘
نواکھلی میں قتلِ عام کے عینی شاہدین نے بتایا کہ بیگم گنج، لکشمی پور، ہتیا، مائجدی اور چوموہنی میں بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا۔ ان تمام علاقوں میں غیر بنگالی کم تعداد میں تھے اور خاصے بکھرے ہوئے تھے۔ چند غیر بنگالی تاجروں کو تاوان کی وصولی کے لیے اغوا کر لیا گیا اور ان کی دکانیں لوٹ لی گئیں۔ مارچ سے اپریل ۱۹۷۱ء تک مائجدی میں ریلوے کے چند ملازمین کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا۔ چند دور افتادہ علاقوں اور دریائی جزائر (دکھن شہباز پور، جنوبی ہتیا اور سندیپ) میں بھی عوامی لیگ کے جنونی قاتلوں نے غیربنگالیوں کا قتل عام کیا۔
سلہٹ کے دکھ
بنگالی باغیوں کی چیرہ دستیوں کا سلسلہ ضلع سلہٹ میں زیادہ طول نہیں پکڑ سکا تھا جبکہ صوبے کے دیگر علاقوں میں باغیوں نے غیر بنگالیوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ سلہٹ میں غیر بنگالیوں کی آبادی زیادہ نہ تھی اور دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ سلہٹ میں آسام سے تعلق رکھنے والے مسلمان بڑی تعداد میں آباد تھے، جو نہیں چاہتے تھے کہ مشرقی پاکستان کو ایک آزاد مملکت میں تبدیل کیا جائے۔ ۱۹۴۷ء میں جب انگریزوں نے پاکستان یا بھارت میں شمولیت کے حوالے سے سلہٹ میں ریفرنڈم کرایا تھا، تب اس ضلع کے بیشتر افراد نے پاکستان سے وابستہ ہونے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ شمالی بنگال صوبے کی تجویز کو سلہٹ میں آباد آسامی نسل کے مسلمانوں کی زبردست حمایت حاصل ہوئی تھی۔
مارچ ۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ کے مسلح باغیوں کے ہاتھوں سلہٹ کے غیر بنگالیوں کو بھی زبردست جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ بنگالی باغیوں کو بھارت سے بڑے پیمانے پر اسلحہ ملتا رہا۔ سلہٹ میں چائے کے باغات میں کام کرنے والوں کو عوامی لیگ کے غنڈوں نے غیربنگالی ایگزیکٹوز اور عملے کے دیگر افراد کے خلاف اکسانا شروع کیا۔ سلہٹ میں شہادت پانے والے غیر بنگالیوں کی حقیقی تعداد تو معلوم نہیں کی جاسکتی تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد ۵۰۰ سے کم نہ تھی۔
۵۰ سالہ واحدہ خاتون نے بتایا: ’’سلہٹ میں عوامی لیگ کے غنڈے ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور میرے بیٹے اور بہو کو شہید کردیا۔‘‘ واحدہ خاتون کے بیٹے ظفر احمد صدیقی سلہٹ میں پی آئی اے کے دفتر میں ملازم تھے۔ ظفر احمد صدیقی اور اُن کی اہلیہ صدیقہ کو ۴؍اپریل ۱۹۷۱ء کو واحدہ خاتون کے سامنے گولیاں ماری گئیں۔ جب واحدہ خاتون نے اپنے بیٹے اور بہو کو بچانے کی کوشش کی تو ایک قاتل نے اُن پر بھی گولی چلا دی۔ گولی لگنے سے اُن کی کھوپڑی چٹخ گئی۔ وہ نشان اب تک ہے۔ مگر اِس سے کہیں بڑا بدنما نشان تو اُن کے دل پر اپنے بیٹے اور بہو کی موت کا ہے۔ واحدہ خاتون کے مطابق قاتلوں نے کہا کہ اُنہیں اس لیے گولی ماری جارہی ہے کہ ان کا آبائی یا نسلی تعلق بنگال سے نہیں اور یہ کہ ان کی مادری زبان اردو ہے۔
واحدہ خاتون نے مزید بتایا: ’’میرے بیٹے اور بہو کی المناک موت سے میرے چھ پوتے یتیم ہوگئے۔ اِس مرحلے پر ہماری اٹھارہ سالہ بنگالی ملازمہ ہاجرہ عزم کا کوہِ بلند ثابت ہوئی۔ اُس نے میرے تمام پوتوں پوتیوں کو قاتلوں سے بچایا۔ جب قاتل ہمارے گھر میں داخل ہوئے تو ہاجرہ نے اُن کے قدموں میں گر کر کہا کہ کسی کو جان سے نہ ماریں۔ جب اُنہوں نے میرے بیٹے کو گولی ماری تو وہ میری ایک پوتی پر جھک گئی تاکہ اُسے گولی نہ لگے۔ ایک گولی ہاجرہ کو بھی لگی۔ ہمارے مکان مالک بنگالی تھے۔ ہماری حالت دیکھ کر اُن کا دل بھر آیا۔ اُنہوں نے ہمیں اپنے گھر میں پناہ دی اور میرا علاج کرایا‘‘۔
’’میں ۴؍اپریل کی رات کبھی نہیں بھول سکتی جب میرے بیٹے اور بہو کو قتل کیا گیا۔ ہاجرہ اور میرے پوتے پوتیاں رات بھر روتے رہے۔ صبح ہوئی تو ہمارے پڑوسی آئے اور میرے مالک مکان کے ساتھ مل کر انہوں نے میرے بیٹے اور بہو کی تدفین کا بندوبست کیا‘‘۔
’’میرا سب سے بڑا بیٹا سراج گنج میں ایگزیکٹیو انجینئر تھا۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے اُس کے گھر کو لوٹ کر اُسے مقامی جیل میں ڈال دیا جہاں اُس پر انسانیت سوز تشدد کیا گیا۔ اُس کی جان اُس کے بنگالی اسسٹنٹ نے بچائی‘‘۔
’’ہم ۴ مئی کو پاکستان کے لیے روانہ ہوئے۔ ہمیں ایک آڑا ترچھا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ اس سفر میں ہاجرہ ہمارے ساتھ رہی اور اُن نے بھی تمام صعوبتیں ہنس کر سہیں‘‘۔
مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران لالہ بازار، فینچو گنج، گوپال گنج، گووندا گنج، بالا گنج اور جگن ناتھ پور سے بھی غیر بنگالیوں پر تشدد اور ان کے قتل عام کی اطلاعات ملیں۔ پاکستانی فوج نے ۱۰؍اپریل ۱۹۷۱ء کو سلہٹ کو باغیوں سے چھڑایا۔
۲۲ سالہ محمد جمال الدین کے والد سلہٹ کے نزدیک منٹالہ ریلوے اسٹیشن کے سربراہ (اسٹیشن ماسٹر) تھے۔ ستمبر ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا سے لاہور منتقل ہونے والے جمال الدین نے اپنا حال ان الفاظ میں سُنایا: ’’میں شاہ جلال کالج، منٹالہ میں تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ قیام پاکستان کے وقت میرے والدین نے اتر پردیش سے مشرقی پاکستان ہجرت کی تھی۔ ۲مارچ ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ کے غنڈوں نے منٹالہ میں ہمارے گھر پر حملہ کیا اور تمام قیمتی اشیا لوٹ کر لے گئے۔ انہوں نے ہماری جاں بخشی کردی۔ میرے والد نے ڈھاکا کے نزدیک گھوراسل کے مقام پر ایک مکان بنوایا تھا۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اُس مکان میں رہنا چاہتے تھے۔ جب منٹالہ میں ہمارا گھر لوٹ لیا گیا تو ہم سب گھوراسل جانے کے لیے نکلے مگر منٹالہ ریلوے اسٹیشن پر جماعت اسلامی کے ایک کارکن نے بتایا کہ گھوراسل غیر بنگالیوں کے لیے غیر محفوظ ہوچکا ہے، اس لیے بہتر ہوگا کہ ہم وہاں نہ جائیں۔ میرے بہنوئی ڈھاکا کے نواحی علاقے محمد پور میں رہتے تھے۔ مگر ڈھاکا میں بھی بیشتر علاقے غیر بنگالیوں کے لیے انتہائی غیر محفوظ ہوچکے تھے۔ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے دہشت کا راج قائم کر رکھا تھا۔ ہم نے محمد پور کا رخ کیا اور وہاں محفوظ رہے۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے ڈھاکا کے بیشتر علاقوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا مگر محمد پور ان کی دست برد سے بہت حد تک محفوظ رہا۔ جن لوگوں نے رات کی تاریکی میں محمد پور سے نکلنے کی کوشش کی، اُنہیں موت کا سامنا کرنا پڑا۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو پاکستانی فوج نے جو کارروائی کی، وہ ہمارے لیے زندگی کا پیغام ثابت ہوئی‘‘۔
دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے بھارتی فوج کی مدد سے پورے مشرقی پاکستان کو اپنی جاگیر میں تبدیل کرلیا تب غیر بنگالیوں پر نئی قیامت ٹوٹی۔ ایک مرحلے پر محمد جمال الدین اور اُس کے بھائی کو بھی عوامی لیگ کے غنڈوں نے پکڑ لیا اور اس مقام پر لے گئے جہاں غیر بنگالیوں کو ذبح کردیا جاتا تھا۔ جمال الدین اپنے بھائی کو قتل ہوتے ہوئے دیکھ کر شدید خوفزدہ ہوگیا۔ اس نے بتایا: ’’اللہ ہی جانتا ہے کہ مجھ میں اچانک کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ میں عوامی لیگ کے درندوں کا گھیرا توڑ کر گرلز کالج (نورجہاں روڈ) میں قائم بہاری کیمپ کی طرف بھاگ نکلا۔ کیمپ کے بنگالی آفیسر انچارج نے مجھے پناہ دی۔ میں پاکستان منتقلی تک اِسی کیمپ میں رہا‘‘۔
مولوی بازار، بھیرمارہ اور نارکل ڈنگا میں قتل عام
مولوی بازار کے علاقے تُلسی تالا میں درزی کی دکان چلانے والے ۳۴ سالہ قمرالدین خان نے بتایا: ’’عوامی لیگ کے غنڈوں نے ہمارے علاقے میں غیر بنگالیوں کو یرغمال بنایا اور پھر اُنہیں مجبور کیا کہ وہ اپنی قبریں خود کھودیں۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے مولوی بازار میں قتل و غارت کا جو بازار گرم کیا اس میں چند ہی غیر بنگالی محفوظ رہ سکے۔
اکتوبر ۱۹۷۳ء میں قمرالدین خان کو پاکستان منتقل کیا گیا۔ اُنہوں نے مزید بتایا: ’’میں ۱۹۵۰ء میں بہار سے مشرقی پاکستان منتقل ہوا تھا۔ مجھے مولوی بازار کا علاقہ بہت اچھا لگا اور اِسی لیے میں نے وہاں اپنا درزی کا کاروبار شروع کیا۔ میں بنگالی روانی سے بولتا تھا اور میرے گاہکوں میں غیر بنگالیوں کے ساتھ ساتھ بنگالی بھی تھے‘‘۔
’’مارچ ۱۹۷۱ء سے قبل مولوی بازار میں کسی بھی طرح کی کشیدگی نہ تھی۔ لوگ مل جل کر رہتے تھے اور کسی کو کسی سے شکایت نہ تھی۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے مارچ شروع ہوتے ہی غیر بنگالیوں کے خلاف افواہیں اور منافرت پھیلانا شروع کردی‘‘۔
’’مولوی بازار میں ۱۹ اور ۲۰ مارچ کو لاوا پھٹ پڑا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز اور پولیس کے منحرف سپاہیوں نے غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کردیا۔ جن غیر بنگالیوں نے مزاحمت کی انہیں ان کے گھروں ہی میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ دوسرے بہت سے غیر بنگالیوں کو دریا کے کنارے اور کھیتوں میں لے جاکر گولی مار دی گئی۔ بہت سی لاشوں کو گڑھے کھود کر یونہی ڈال دیا گیا۔ عوامی لیگ کے سفاک درندوں کو بچوں پر بھی رحم نہ آیا، بالخصوص لڑکوں پر۔ خوبصورت جواں سال لڑکیوں کو اغوا کرکے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں انہیں قتل کرکے پھینک دیا گیا۔ ۲۸؍اپریل ۱۹۷۱ء کو پاکستانی فوج نے جب مشرقی پاکستان کو کنٹرول کیا تو باغیوں نے بھاگ کر بھارت میں پناہ لی‘‘۔
’’کئی بنگالیوں نے غیر بنگالیوں کو بچانے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں ان کی اپنی جان خطرے میں پڑگئی۔ پولیس غیر فعال ہوچکی تھی۔ پولیس اہلکار بھی باغیوں سے مل کر لوٹ مار اور قتل و غارت میں مگن تھے۔ مولوی بازار میں کم و بیش دو ہزار غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔‘‘
قمرالدین کی جان اللہ کی مہربانی سے یوں بچ گئی کہ انہوں نے ایک ویران مسجد میں پناہ لی اور ایک ماہ تک وہاں رہے۔
بھیر مارہ میں قتلِ عام
۲۱ سالہ نسیم جہاں کو ایک بنگالی باغی نے یرغمال بنانے کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا۔ نسیم جہاں نے روتے ہوئے کہا: ’’کاش مجھے بھی میرے شوہر کے ساتھ ہی گولی مار دی گئی ہوتی‘‘۔ نسیم جہاں کو نومبر ۱۹۷۳ء میں پاکستان منتقل کیا گیا۔ اس نے اپنا حالِ زار ان الفاظ میں بیان کیا: ’’ہم بھیر مارہ کے علاقے ٹلٹالا میں رہتے تھے۔ ہمارے پڑوسیوں میں اکثریت غیر بنگالیوں کی تھی۔ میرے شوہر قدرت اللہ ایک مقامی ٹریڈنگ فرم میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کے پاس ڈبل بیرل گن بھی تھی‘‘۔
’’مارچ ۱۹۷۱ء کے اوائل ہی سے بھیر مارہ میں غیر بنگالیوں کو پریشان کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ مارچ کے وسط میں عوامی لیگ کے غنڈوں، ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں اور انصار کے رضاکاروں نے غیر بنگالیوں کو لوٹنا اور قتل کرنا شروع کردیا۔ بہت سے غیر بنگالیوں کو سر عام تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور لوٹ لیا جاتا‘‘۔
’’غیر بنگالیوں کے خون کے پیاسے عوامی لیگی درندوں نے ۲۲ مارچ کو ہمارے علاقے پر حملہ کیا اور پوری آبادی کو خون میں نہلا دیا۔ انہوں نے ہمارے گھر پر بھی حملہ کیا۔ میرے شوہر نے اپنی گن کے ذریعے انہیں دور رکھنے کی کوشش کی۔ جب انہوں نے فائر کھولا تو باغیوں نے ہمارے گھر کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔ جب ہمارے پاس گولیاں ختم ہوگئیں تو باغیوں نے گھر کا دروازہ توڑا اور میرے شوہر کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا۔ انہوں نے میرے شوہر کو قتل کرنے کے بعد ان کے سر میں سوراخ بھی کردیا۔ میرے لیے یہ سب قیامت سے کم نہ تھا۔ میں نے کچن میں رکھی ہوئی چھری کی مدد سے خود کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ عوامی لیگ کے ایک غنڈے نے مجھے جکڑ لیا۔ وہ مجھے ایک عمارت میں لے گیا جہاں میری طرح اور بھی بہت سی مجبور و لاچار غیر بنگالی عورتیں رکھی گئی تھیں۔ وہ رات ہم پر قیامت کی طرح گزری۔ ہم سب عورتیں اُن باغی درندوں کے لیے مالِ غنیمت تھیں۔ ہماری حیثیت غلاموں سے زیادہ کچھ نہ تھی‘‘۔
جب بھیر مارہ کو پاکستانی فوج کے ایک دستے نے باغیوں کے چنگل سے چھڑایا تو نسیم جہاں کی بھی جان چھوٹی۔ اُسے ڈھاکا کے ایک ریلیف کیمپ میں رکھا گیا۔ وہ چند رشتہ داروں کے ساتھ نیپال گئی جہاں اُس نے چند ماہ انتہائی نامساعد حالات میں گزارے۔
It is a fact that non bengalees very brutally murdered and the dead were shown as bengalees killed by pak army by bharti & western media