
شیخ حسینہ واجد کی یک جماعتی حکومت نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ایک طرف سیاست کی خرابی ہے اور دوسری طرف معیشت کی۔ غلط معاشی سفارت کاری نے ملک کے لیے سنگین خطرات پیدا کیے ہیں۔ مستقبل قریب میں غیر معمولی خرابیاں سر اٹھاتی دکھائی دے رہی ہیں۔
یہ سب کچھ جوتے کو غلط پاؤں میں پہننے کی کوشش کرنے سے ہوا ہے۔ سیدھے لفظوں میں کہیے تو یہ خرابیاں بھارت پر غیر معمولی انحصار سے پیدا ہوئی ہیں جس نے اپنی مصنوعات کا بنگلہ دیش میں ڈھیر لگادیا ہے اور بھارت کے لیے بنگلہ دیش کی برآمدات برائے نام ہیں۔ بیرون ملک مقیم بنگلہ دیشی جو رقوم بھیجتے ہیں، وہ بھی کم ہوتی جارہی ہیں۔ بنگلہ دیشی برآمدات میں اس لیے کمی واقع ہو رہی ہے کہ جو ممالک بنگلہ دیش سے مال منگواتے ہیں، ان سے شیخ حسینہ کی حکومت کا رویہ خراب ہوتا جارہا ہے۔
بنگلہ دیش کی بیشتر برآمدات امریکا اور یورپی یونین کے لیے ہیں۔ ان دونوں کی طرف سے زور دیا جاتا رہا ہے کہ سیاسی تعطل ختم کیا جائے اور ملک میں قابلِ رشک سیاسی استحکام لایا جائے۔ مگر اس پر شیخ حسینہ کی حکومت نے کبھی توجہ نہیں دی۔ بھارت اور روس کی پشت پناہی سے ملک کو ایک جماعت کے اقتدار کی گرفت میں دیا جاتا رہا ہے۔ ایک جماعتی حکومت کا نظام، شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمن نے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں متعارف کرایا تھا۔
بنگلہ دیش کے بیشتر تارکین وطن سعودی عرب، خلیجی ریاستوں اور ملائیشیا میں کام کرتے ہیں۔ یہ تمام ممالک امریکا اور یورپی یونین کے اتحادی ہیں۔ دوسری طرف بھارت اور روس میں نہ تو بنگلہ دیشی تارکین کام کرتے ہیں، نہ یہ ممالک بنگلہ دیش کی برآمدی منڈیاں ہیں۔ امریکا اور سعودی عرب کو بنگلہ دیشی برآمدات کا بڑا حصہ جاتا ہے۔ یہ دونوں ممالک اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں حقیقی جمہوریت آنی چاہیے۔ انہوں نے ۵ جنوری ۲۰۱۴ء کے انتخابات کو بھی نمائندہ حیثیت دینے میں دلچسپی نہیں لی۔ امریکا اور کینیڈا سے ترسیلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور رواں سال معاملہ دو ارب ڈالر تک رہا ہے۔ غیر قانونی ذرائع سے بھی ان ممالک سے رقوم بھیجی جاتی ہیں۔
امریکا کی طرح یورپی یونین نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ایسے انتخابات کرائے جائیں جن میں تمام جماعتیں شریک ہوں اور پارلیمنٹ میں تمام جماعتوں اور طبقات کی نمائندگی دکھائی دینی چاہیے۔ یورپی یونین بنگلہ دیش کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔ ۲۰۱۳ء میں یورپی یونین کو بنگلہ دیش کی برآمدات ۱۳؍ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ معروف برطانوی جریدے ’’دی اکنامسٹ‘‘ نے بھی لکھا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت بھارت کے اشارے پر چلتی ہے اور بھارت بیشتر معاملات میں بنگلہ دیش کو کچھ کرنے یا آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے۔
بنگلہ دیش اور روس کے درمیان بھی تجارت اب تک پنپ نہیں سکی۔ ۲۰۱۳ء میں دو طرفہ تجارت کا حجم صرف ۷۰ کروڑ ڈالر تھا۔ کہتے ہیں کہ ماسکو کا راستہ دہلی سے ہوکر گزرتا ہے۔ یہ بہت غیر عقلی اور غیر منطقی سی بات لگتی ہے۔ روس نے بنگلہ دیش کو ایک ارب ڈالر کا قرضہ بھی دیا ہے تاکہ اسلحے کی خریداری ممکن ہو اور ساتھ ہی اس نے جوہری ٹیکنالوجی فراہم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ امریکا کو یہ بات پسند نہیں کہ بنگلہ دیش، بھارت اور روس کے درمیان وسیع البنیاد اتحاد قائم ہو۔
بیرون ملک مقیم بنگلہ دیش کی بھیجی ہوئی رقوم (کم و بیش ۱۴؍ارب ڈالر) کا سب سے بڑا حصہ یعنی ۳۵ فیصد سعودی عرب سے آتا ہے۔ امریکا اور یورپی یونین بالترتیب تیسری اور پانچویں پوزیشن پر ہیں۔ بنگلہ دیشیوں کی ترسیلات کا صرف ۳ فیصد ملائیشیا سے آتا ہے۔
بیشتر سیاسی اور اسٹریٹجک امور میں نیٹو ممالک اور خلیجی ریاستیں مل کر کام کرتی ہیں۔ اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اگر بنگلہ دیش اپنی معیشت کو مستحکم کرنا چاہتا ہے تو ان ممالک پر ایک ساتھ توجہ دینی ہوگی، ان کی پسند و ناپسند کا خیال رکھنا ہوگا۔ بنگلہ دیش کی صورت حال کا ان ممالک کو افرادی قوت کی برآمد پر منفی اثر پڑا ہے۔ اپوزیشن کو کچلنے کی کوششوں اور ملک میں نمائندہ حکومت کے قیام کی راہ میں دیواریں کھڑی کیے جانے کے باعث اب امریکا، یورپی یونین اور خلیجی ریاستوں نے بنگلہ دیش سے افرادی قوت منگوانے کو ترجیح دینا چھوڑ دیا ہے۔ ایک سال کے دوران معاملات بہت بگڑ گئے ہیں۔
سیاسی حالات کی خرابی نے بنگلہ دیش میں معاشی خرابیوں کو بھی راہ دی ہے۔ خام قومی پیداوار میں اضافے کی شرح ۶فیصد تک رہی ہے جو بہت کم ہے۔ نصف سے زائد افرادی قوت کا تعلق زرعی شعبے سے ہے جس میں شرح نمو صرف ۲۵ء۲ فیصد تک رہی ہے۔ خدمات کے شعبے میں بھی حال بہت برا ہے۔ بنگلہ دیش کی گارمنٹ انڈسٹری ۲۲؍ارب ڈالر کی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ اس شعبے کو دو برس تک انتہائی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ ۲۰۱۳ء میں ریڈی میڈ گارمنٹس کے شعبے میں بیشتر آمدنی پچھلے آرڈرز کی بدولت تھی۔ نئے آرڈر کم ہیں۔ ملک بھر میں ہڑتالوں اور تشدد کے نتیجے میں گارمنٹ انڈسٹری کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ سیاسی بے یقینی اور ابتری نے ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھنے والی ریڈی میڈ گارمنٹ انڈسٹری کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ بنگلہ دیش نے دو عشروں کے دوران جو کچھ پایا تھا، وہ اب ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی خام قومی پیداوار کا نصف اب برآمدات اور ترسیلات پر منحصر ہے۔ بنگلہ دیشی برآمدات میں ۸۰ فیصد اب ریڈی میڈ گارمنٹس پر مشتمل ہے۔ اگر پندرہ برس کی مدت کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ بنگلہ دیش نے جو کچھ دو عشروں میں بہت محنت سے پایا، وہ اب داؤ پر لگ چکا ہے۔ سیاسی تعطل کی فضا نے معیشت کو بھی مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ ایک طرف تو برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے اور دوسری طرف درآمدات بڑھتی جارہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ افرادی قوت برآمد کرنے کے شعبے میں بڑھتی ہوئی مشکلات کے باعث ترسیلات میں بھی کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ پندرہ برس کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا ہے کہ ترسیلات میں ۱۰ فیصد اضافہ ہوا ہے مگر یہ سب تو ملک کے موجودہ سیاسی تعطل کے برپا ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ حالات بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ بنگلہ دیش ان ممالک میں سے ہے جن کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ترسیلات پر مشتمل ہے۔ ایسے ممالک کے لیے خارجہ پالیسی بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ جن ممالک میں ان کی افرادی قوت کی کھپت ہوتی ہے، ان سے بہتر تعلقات استوار رکھنا اور ان کے مفادات اور پسند و ناپسند کا خیال رکھنا بہت اہم ہوتا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے ان سفارتی نزاکتوں کا خیال نہیں رکھا ہے۔
ایک طرف زر مبادلہ کے ذخائر گھٹتے جارہے ہیں اور دوسری طرف مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ملازمتوں کے مواقعوں میں کمی آرہی ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری بھی برائے نام رہ گئی ہے۔ بہت سے وعدے اب تک وفا نہیں ہوئے اور معاملات دستاویزات کی حد تک رہے ہیں۔ یہ صورت حال بنگلہ دیشی کرنسی پر دباؤ میں بھی اضافہ کر رہی ہے۔ شرحِ مبادلہ بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ ۲۰۱۳ء کے دوران صرف ڈیڑھ ارب ڈالر کی براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کے وعدے کیے گئے۔
بھارت پر بنگلہ دیش کا دار و مدار بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ۲۰۱۳ء میں بنگلہ دیش کے لیے بھارتی برآمدات ۶؍ارب ڈالر کی تھیں۔ غیر قانونی برآمدات اس سے دگنی بتائی جاتی ہیں۔ دوسری طرف بھارت کے لیے بنگلہ دیشی برآمدات ۶۰ کروڑ ڈالر کی رہی ہیں! بھارت نے بیشتر معاملات میں بنگلہ دیش کو دباکر رکھا ہوا ہے۔ محل وقوع اور مشترکہ دریاؤں کے باعث بنگلہ دیش اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں۔ بھارت اور عالمی برادری دونوں کے معاملے میں بنگلہ دیش کا توازنِ ادائیگی منفی ہوتا جارہا ہے۔ بھارتی ادارے بنگلہ دیش کی سرزمین پر غیر معمولی اثر و رسوخ کے حامل ہیں۔ ان کے آگے بنگلہ دیشی اداروں کی کوئی وقعت نہیں رہی۔ ایسے میں اگر حکومت نے معاملات درست کرنے کے لیے بروقت درست فیصلے نہ کیے تو خرابیاں بڑھتی جائیں گی اور معیشت پر دباؤ میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔
(ترجمہ و تلخیص: محمد ابراہیم خان)
(“Democracy is dead, economy in a coma”. “Weekly Holiday” Dhaka. Feb.14,2014)
Leave a Reply