خود احتسابی کا عمل دیانتداری سے انجام دیں

ڈاکٹر محمد رفعت ہندوستان کے ایک ممتاز دانشور ہیں۔ اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (SIMI) کے صدر رہ چکے ہیں۔ آج کل بھارت کی مشہور و معروف یونیورسٹی جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی میں علمِ طبیعیات کے پروفیسر ہیں۔ آپ نے فزکس میں ماسٹرز کی ڈگری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھارت ہی کے ممتاز و نامور ادارے Indian Institute of Technology کانپور سے حاصل کی۔ ڈاکٹر محمد رفعت نے اسلامی طلبہ تنظیم میں فعال قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے بھی اپنے روشن تعلیمی کیریئر پر کبھی آنچ نہ آنے دی اور ہمیشہ امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوتے رہے۔ اس وقت آپ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن اور دہلی و ہریانہ کی صوبائی جماعت کے امیر ہیں۔ آپ ملتِ اسلامیہ ہند کے متعدد اداروں کے Board of Trustees میں بھی شامل ہیں۔ انگریزی ہفتہ روزہ ’’ریڈ ینس‘‘ دہلی کے نمائندہ محمد عاصم خان نے آپ سے انٹرویو کیا ہے جس کا اقتباس درج ذیل ہے:


س: آپ کے نزدیک بحرانِ شناخت (Identity Crise) کا کیا مطلب ہے؟

ج: ہندوستان کے مسلمانوں کے حوالے سے بحرانِ شناخت کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ایک ایسی صورتحال میں گرفتار ہیں جس میں اسلام پر مکمل طور سے عمل نہیں کر سکتے یعنی اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام پر عمل پیرا نہیں ہو سکتے۔ جب کوئی گروہ ایسی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے تو اس گروہ کے عقیدے اور خارجی حقیقت میں تضاد اور ٹکرائو کی صورتحال ہوتی ہے۔ یہ تضاد اس گروہ کی اجتماعی نفسیات پر دبائو اور تنائو کا سبب بنتے ہیں۔ اگر یہ دبائو تنائو تادیر باقی رہ جائے تو یہ گروہ اپنی شناخت کی حقیقت کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہے۔ شناخت کے بحران کا یہی مطلب ہے۔

س: کیا تکثیری معاشرے میں اقلیتوں کے ساتھ پیش آنے والا یہ ایک امرِ واقعہ ہے؟

ج: شناختِ بحران ایک ایسا امرِ واقعہ ہے جو کسی بھی ثقافتی وجود کو درپیش ہوتا ہے جبکہ وہ وجود ایک ایسے سیاسی نظام کے تحت زندگی گزار رہا ہو جو اسے اپنے تصور جہاں بینی اور عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے مناسب آزادی دینے سے انکاری ہو۔ مسلمانوں کو ایسی اقلیت میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس قسم کے بحران ان کے ساتھ پیش آئے۔ ترکی کی سیکولر حکومت نے کمال اتاترک کے منحرف خیالات پر عمل کرتے ہوئے مسلمان ترکی کے لیے اس قسم کے بحرانِ شناخت کو جنم دیا۔ ایک ایسا سیاسی نظام جو مختلف ثقافتی وجوہائے اجتماعی کو اپنے نظام کے زیرِ سایہ مناسب آزادی فراہم نہیں کرتا ہے‘ عدم رواداری اور عدم برداشت کا حامل نظام کہلاتا ہے۔ اس طرح بحرانِ شناخت ایک ایسا امر واقعہ ہے جس کا تجربہ ان ثقافتی وجود ہائے اجتماعی کو ہوتا ہے جو اس عدم برداشت کے حامل نظام کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔

س: کیا بھارت کے مسلمانوں کو شناخت کا مسئلہ درپیش ہے؟

ج: بھارت کے مسلمانوں کو یقینی طور سے شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔ قومیت کی مخصوص قسم (ثقافتی قومیت) کے زیرِ اثر آکر بھارت میں ایک طاقتور گروہ مسلمانوں پر زبردستی کرتا رہا ہے کہ وہ اپنی اسلامی شناخت ترک کر دیں اور مشرکانہ ثقافتی طرزِ عمل اختیار کر لیں۔

س: آپ کے خیال میں کون سے عوامل اس مسئلے کے ذمہ دار ہیں؟

ج: میں نے ابھی اوپر ذکر کیا ہے کہ بہت سے عوامل میں ایک عامل جو اس بحرانِ شناخت کا ذمہ دار ہے وہ ایک ایسے طاقتور گروہ کا وجود ہے جو جارحانہ قومیت کی وکالت کرتا ہے۔ دوسرا عامل غیرجارحانہ قومیت کے نظریات پر مبنی ہے۔ ان نظریات کو ملک کی تمام سیاسی گروہوں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ سب لوگ ہندوستان میں ثقافتی اعتبار سے ہم آہنگ ایک قوم کی تخلیق کے خواہشمند ہیں۔ اس کے لیے جو طریقہ ان کے پیشِ نظر ہے اس میں ظاہراً کسی جبری طریقہ سے گریز ضروری ہے۔ اس کے بجائے وہ ہم آہنگی اور یکسانیت کا ہدف تعلیم نیز معاشرتی و معاشی اور قانون سازی کے اقدام کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ اس مقابل رجحان کا وجود جو مسلمانوں کو ایک یکساں قومی ثقافت کو قبول کر لینے کا مشورہ دے رہا ہے اور انہیں اس کے لیے آمادہ کر رہا ہے ایک دوسرا اہم عامل ہے شناختِ بحران کا۔

س: جہاں تک شناخت کا سوال ہے تو مسلمان کس طرح دوسری اقلیتوں سے مختلف ہیں؟

ج: مسلمانوں کی ثقافت جو ان کی شناخت کو تشکیل دیتی ہے وہ تاریخی روایت یا جسمانی یا معاشرتی ماحول کی خصوصیات سے ماخوذ نہیں ہے۔ نہ ہی یہ ثقافت مخصوص جغرافیائی پس منظر سے ماخوذ ہے اس کے بجائے یہ ثقافت اسلامی عقائد اور تصورِ جہاں بینی پر مبنی ہے۔ عقائد اور نظریۂ جہانی اپنی فطرت میں آفاقی ہوتے ہیں اور تمام انسان ان عقائد کو قبول کر سکتے ہیں۔ ایک طریقہ پیش کرنے کا یہ ہے کہ یہ بتایا جائے کہ وہ مسلم کردار نہیں تھا جو ایک مخصوص زمانے میں اسلامی ثقافت کے نام سے معروف ہو گئی۔ بلکہ درحقیقت وہ اسلام کی تہذیبی و ثقافتی روح ہے جسے مسلم کردار کا تعین کرنا چاہیے اور ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ یہ مشورہ کہ مسلمان اپنی ثقافت ترک کر دیں‘ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اسلام چھوڑ دیں۔

س: کیا اس مسئلہ کے ذمہ دار مسلمان بھی ہیں؟

ج: مسلمان یقینا اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ اگر وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے ادراک کرتے کہ اسلام کسی خصوصی گروہ کا مذہب نہیں ہے بلکہ یہ ایک آفاقی راہِ نجات ہے‘ تمام نوعِ انسانی کے لیے تو پھر لوگوں کے سامنے اسلام کو اسی انداز میں پیش کرتے۔ ہندوستانی عوام کی اکثریت پر بہت جلد یہ واضح ہو جائے گاکہ اسلام ان نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں کہیں بہتر متبادل ہے جن کے تحت وہ اب تک زندگی گزارتے رہے ہیں۔ پھر شناخت کے بحران کا معاملہ ختم ہو جائے گا۔

س: کیا یکسانیت ہم جیسوں کے معاشرے کے لیے آئیڈیل ہو سکتا ہے؟

ج: سچائی اور انصاف ہی کسی معاشرے کے لیے آئیڈیل ہیں۔ یکسانیت کوئی آئیڈیل نہیں ہے۔ پورا ملک کسی‘ ڈکٹیٹر کی قیادت میں متحد ہو سکتا ہے اور وہ ڈکٹیٹر داخلی اور خارجی سطح پر غیرمنصفانہ پالیسیوں کا حامل ہو سکتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال یکسانیت کی ترجمان ہو سکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ اخلاقی بنیادوں پر ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے۔ دوسری جانب سچائی اور انصاف کی کوششوں کو ہر زمانے میں فطری خیال کر کے انسانوں نے ان کو قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ بہرحال کسی فرد یا گروہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں پر اپنے خیالات مسلط کرنے یا اپنی مرضی تھوپے۔

س: بھارت میں جبکہ مسلمانوں کے مذہبی طرزِ عمل‘ زبان اور ثقافت وغیرہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ پھر بھارت میں مسلمانوں کی شناخت کا کیا حوالہ ہو گا؟

ج: مسلمانوں کے وہ اعمال جو براہِ راست اسلامی نظریۂ جہانی‘ عقائد اور اقدار سے ماخوذ ہیں ان میں مقامی حوالے سے کوئی تغیر و تبدل نہیں ہونا ہے۔ اس کی ایک مثال طریقۂ عبادت ہے۔ اس کے باوجود کہ مسلمانوں کے مابین زبان اور علاقے کا اختلاف ہے مگر وہ سب ایک ہی طریقہ سے عبادت کرتے ہیں۔ اس کے بعد ثقافت کے پہلو ہیں جو کہ مقامی ہیں مثلاً زبان کا بولا جانا یا لباس کا پہنا جانا۔ ان معاملات میں اسلام تغیر و اختلاف کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام کا اس حوالے سے صرف ایک تقاضا ہے کہ یہ اختلاف اسلامی اصول کے دائرے میں ہوں۔ کوئی بھی شخص کسی قسم کا بھی لباس پہن سکتا ہے اگر وہ لباس ستر پوشی کے بنیادی اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص کوئی بھی زبان بول سکتا ہے لیکن الفاظ کا انتخاب و استعمال مناسب‘ شائستہ اور مشرکانہ تعبیرات سے پاک ہونا چاہیے۔ اسلام ہی مسلم ثقافت کا حوالہ ہے۔ ہماری ثقافت ان اجزا پر مشتمل ہے جو اسلام کے نظریۂ جہانی سے ماخوذ ہے یا پھر ان اجزا پر جن کی اسلام اجازت دیتا ہے۔

س: مسلم شناخت سے متعلق ہندتو اور بائیں بازو کے مخصوص ایپروچ میں کیا فرق ہے؟

ج: ہندوتو کی تحریک مسلمانوں کی ثقافتی شناخت مٹانے کے ساتھ ان کے جسمانی وجود کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے جبری طریقوں پر بھی یقین رکھتی ہے۔ مگر بائیں بازو کی قوتیں مسلمانوں کے جسمانی وجود کو کوئی نقصان پہنچانا نہیں چاہتی ہیں مگر یہ بہرحال چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کو تعلیم اور قانون سازی کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے پُرامن طریقے سے سیکولر بنایا جائے۔

س: کیا آپ ان دونوں رویوں میں سے کسی ایک سے اتفاق کرتے ہیں؟

ج: ہندتو اور بائیں بازو دونوں کا رویہ ناقابلِ قبول ہے۔ مسلمانوں کو بائیں بازو کے لوگوں کے سامنے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرنی چاہیے۔ امید کی جاتی ہے کہ موجودہ صورتحال میں بائیں بازو کے لوگ مسلم نقطۂ نظر کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔

س: ایسی حالت میں جبکہ مسلم شناخت معرضِ خطر میں ہے‘ آپ کے خیال میں مسلمانوں کو وہ کونسا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے جس سے وہ اپنی شناخت کی حفاظت کر سکیں؟

ج: ایک بہت بڑا میدان ہے جس میں مسلمان اسلام پر عمل کرنے کے حوالے سے مکمل طور پر آزاد ہیں۔ یہ ان کے ذاتی‘ اخلاق کردار اور خاندانی زندگی کا معاملہ ہے۔ وہ خدا کا خوف رکھنے والے‘ متقی‘ ایماندار‘ قابلِ اعتماد‘ شائستہ اور نفیس و مہذب شخصیت کے حامل ہو سکتے ہیں۔ وہ ننگے اور ناشائستہ کلچر سے دوری اختیار کر سکتے ہیں جو مغرب سے درآمد کیا جارہا ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو لائق و فائق‘ محنت کش اور قانون کی پابندی کرنے والے افراد میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ وہ اسلام کے پیغام کو تمام مسلمانوں تک عام کرنے کے عمل کا آغاز کر سکتے ہیں۔ وہ مادیت اور اصراف کے بالادست کلچر سے گریز کر سکتے ہیں۔ مسلمان عورتیں پردہ کے اسلامی اصولوں پر عمل کر سکتی ہیں اور مسلم مرد پاکدامن‘ متقی اور بہتر شوہر ثابت ہو سکتے ہیں۔

ان تمام باتوں پر عمل ہو سکتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ نہیں ہو رہا ہے۔ اس کے بجائے مسلمان نالہ وشیون اور اپنے علاوہ دوسروں کو اپنی ناکامیوں کا الزام دینے میں طاق نظر آرہے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب مسلمانوں کو دیانتداری سے اپنا جائزہ لینا چاہیے اور اسلام کو اپنی زندگی میں ڈھالنے کا آغاز کرنا چاہیے۔ اپنے تشخص کی حفاظت کی خاطر مسلمانوں کو سہ طرفہ اقدام کرنا چاہیے:

۱۔ اسلام کو اپنی عملی زندگی میں خلوص کے ساتھ نافذ کریں اور اس کے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچائیں۔

۲۔ ضرورت پڑنے پر اجتماعی طور پر مناسب سماجی و سیاسی اقدام کرتے ہوئے اجتماعی فورمز تشکیل دیں جو ملتِ اسلامیہ کی نمائندگی کرتے ہوں۔

۳۔ اور جب خطرہ آن پڑے تو اپنے جسمانی وجود کا بھرپور دفاع کریں۔

س: ہمارے قارئین کے لیے کیا آپ کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: حالات یقینا سنگین ہیں۔ محض تنقید کرنے اور بغیر سوچے سمجھے محض سرگرم رہنے کے بجائے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی سے اپنے حالات کا تجزیہ کریں۔ انہیں اپنی کمزوریوں کی شناخت کرنی چاہیے پھر ان کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے اصلاح کے لیے اجتماعی طور سے قدم اٹھانا چاہیے۔ پھر انہیں اﷲ کی نصرت پر بھروسہ کرنا چاہیے جو اس کے مخلص بندوں کے شاملِ حال رہتی ہے۔

٭٭٭

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*