
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بات کئی بار برملا کہی ہے کہ امریکا کو دُور افتادہ خطوں میں لاحاصل جنگوں میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی حکام افغانستان سے فوجیوں کو خاموشی سے نکال رہے ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار نے بتایا ہے کہ امریکا نے ایک سال کے دوران افغانستان سے دو ہزار فوجیوں کو چپ چاپ نکال لیا ہے۔ یہ خاموش انخلا کابل حکومت کے علم میں ہے اور اس حوالے سے باضابطہ دستاویزی کارروائی بھی کی گئی ہے۔ یہ انخلا اس اعتبار سے حیرت انگیز ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ چکا ہے اور ان سے کسی باضابطہ معاہدے کی منزل بہت دور دکھائی دیتی ہے۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کے ٹاپ کمانڈر جنرل آسٹن ایس ملر نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ایک سال کے دوران دو ہزار امریکی فوجیوں کو وطن واپس بھیجا گیا ہے، جس کے نتیجے میں افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد اب بارہ ہزار رہ گئی ہے۔ امریکا نے طالبان سے مذاکرات کے دوران اس بات پر رضا مندی ظاہر کی تھی کہ افغان سرزمین پر تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد ساڑھے آٹھ ہزار تک لائی جائے گی۔ افغان اور امریکی حکام نے بتایا ہے کہ امریکی فوجیوں کا انخلا جاری رہا تو باقی رہ جانے والے امریکی فوجیوں کی تعداد ۸۶۰۰ تک گرسکتی ہے۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے افغانستان کے حالیہ دورے میں یہ بات کہی تھی کہ اگر وہاں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد ۸۶۰۰ تک لائی جائے تب بھی انسدادِ دہشت گردی کے آپریشنز کی کارکردگی پر کچھ زیادہ منفی اثر مرتب نہیں ہوگا۔
امریکی صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکا دنیا بھر میں عسکری مہمات سے کنارہ کش ہوجائے۔ اس حوالے سے ان کی بے تابی کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ امریکا میں آئندہ برس صدارتی انتخاب ہونا ہے۔ ایسے میں اگر کہیں لڑائی زور پکڑ گئی اور امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں واقع ہوئیں تو ٹرمپ کا دوبارہ منتخب ہونا انتہائی دشوار ہوگا۔ صدر ٹرمپ کی بے تابی دیکھتے ہوئے امریکی حکام نے افغانستان سے زیادہ سے زیادہ امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کی تیاریاں شروع کیں۔ طالبان سے مذاکرات کے دوران امریکی حکام نے چاہا کہ کسی ایسے معاہدے پر دستخط ہوجائیں جس کے تحت افغان سرزمین پر ایک خاص تعداد میں امریکی فوجی تعینات رکھنا ممکن ہوسکے۔ طالبان کا مطالبہ ہے کہ امریکا ان کی سرزمین سے اپنے تمام فوجیوں کو واپس بلالے۔
طالبان سے کسی باضابطہ معاہدے کے طے پانے سے قبل ہی افغانستان سے امریکی فوجیوں کے خاموش انخلا کا ایک واضح مطلب یہ ہے کہ امریکا مذاکرات کی میز پر اپنی پوزیشن کمزور کر رہا ہے۔ اگر افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد غیر معمولی حد تک کم ہوگئی تو طالبان پر دباؤ ڈالنا، اُن سے کوئی بڑی بات منوانا انتہائی دشوار ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ امریکا کے لیے افغان فورسزکو انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے خصوصی تربیت دینا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ امریکی اور افغان حکام نے بتایا ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز کو پورے ملک کی سلامتی کے حوالے سے ذمہ داری سنبھالنے کے قابل بنانا امریکی فوج کا ایک بنیادی مقصد رہا ہے۔ خاموش انخلا کا مطلب یہ بھی لیا جائے گاکہ امریکا اب اس بنیادی مقصد کے حوالے سے کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں۔
فاکس نیوز سے ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ کی زبان لڑکھڑا گئی اور انہوں نے یہ کہا کہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد ۱۴ ہزار نہیں بلکہ ۹ ہزار ہے۔ اس سے طالبان نے یہ مفہوم اخذ کیا کہ اب امریکی حکام کسی باضابطہ معاہدے کا انتظار کرنے کے بجائے افغانستان سے چپ چاپ نکلنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ قطر میں مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے۔ امریکی مذاکرات کاروں کی کوشش رہی کہ طالبان کسی نہ کسی طور اس بات پر رضامند ہوجائیں کہ افغانستان میں امریکی فوجی ایک خاص حد تک ضرور تعینات رہیں گے۔ وہ طالبان کو یہ یقین بھی دلانا چاہتے تھے کہ وہ افغانستان کی بہبود کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ امریکی مذاکرات کاروں نے طالبان سے مذاکرات کی بنیاد پر معاہدے کا ایک مسودہ تیار کیا تھا، جس میں اس بات کی ضمانت فراہم کی گئی تھی کہ پانچ ماہ کے اندر کم و بیش ساڑھے پانچ ہزار امریکی فوجی افغانستان چھوڑ دیں گے۔ اس کے جواب میں طالبان سے صرف اس بات کی ضمانت مانگی جارہی تھی کہ وہ (طالبان) تشدد ترک کردیں گے۔
طالبان سے امریکی حکام کے مذاکرات ستمبر میں اس وقت اچانک ختم ہوگئے، جب صدر ٹرمپ نے پلگ کھینچ لیا۔ معاہدے کا مسودہ تیار ہوچکا تھا۔ تب سے اب تک امریکی حکام یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے آئے ہیں کہ طالبان سے رابطے مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے اور کسی نہ کسی شکل میں بات چیت جاری ہے۔ اکتوبر کے وسط میں افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی۔
افغان حکومت کی ایک شکایت یہ تھی کہ امریکا کو فوجیوں کی تعداد گھٹانے کی بات طالبان کے بجائے اس سے کرنی چاہیے تھی۔ طالبان سے کوئی معاہدہ طے پائے اس سے قبل ہی امریکی فوجیوں کا انخلا امریکی کمانڈر کے ساتھ ساتھ افغان حکومت کو بھی سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کرے گا۔
گزشتہ برس جنوری میں افغان صدر اشرف غنی نے افغانستان میں اخراجات کم کرنے کی صدر ٹرمپ کی شدید خواہش کے پیش نظر کہا تھا کہ اگر امریکی حکام فوجیوں کی تعداد کم کرنے کے حوالے سے طالبان سے کوئی اچھی ڈیل نہ کر پائیں تو افغان حکومت براہِ راست بات چیت کے لیے تیار ہے۔
جنرل آسٹن ملر نے بہت پہلے افغانستان میں تعینات رکھے جانے والے امریکی فوجیوں کی تعداد ۸۶۰۰ مقرر کی تھی۔ یہ فوجی افغان فورسز کی بھرپور معاونت کی پوزیشن میں بھی ہوں گے۔
جنرل ملر اسپیشل آپریشنز آفیسر ہیں۔ اُن کی شہرت ملٹری یونٹس کو کم حجم کے ساتھ متوازن رکھنے اور مشن ہر حال میں کامیابی سے مکمل کرنے کے حوالے سے ہے۔ جنرل ملر نے ایک سال کے دوران افغان مشن کی قیادت کی ہے۔ اس دوران امریکی فوجیوں نے افغان فوج کے لیے عمل نواز رویے کی حامل قیادت یقینی بنانے پر توجہ دی ہے تاکہ جنگ کا بوجھ افغان فوج اٹھائے اور افغانستان میں امریکی فوج کی قیادت اپنے وسائل بہ طریق احسن بروئے لانے پر متوجہ رہے اور ضرورت پڑنے پر افغان فوج کو فضائی قوت سے معاونت حاصل رہے گی۔
۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۱ء میں جب افغان جنگ نقطۂ عروج پر تھی تب افغان سرزمین پر تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ امریکی فوجیوں کی معاونت کے لیے نیٹو اتحادیوں کے ہزاروں فوجی بھی تعینات تھے۔ ان سب نے مل کر ایک بڑا عالمی فوجی اتحاد تشکیل دیا۔ اب امریکی فوجیوں کی تعداد میں مزید کمی کا مطلب یہ ہے کہ افغان فورسز کی تربیت کا بوجھ وہاں تعینات ساڑھے آٹھ ہزار نیٹو فوجیوں اور دیگر اتحادیوں کو اٹھانا پڑے گا۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکا کی طرح نیٹو اتحادیوں نے بھی اپنے فوجیوں کے انخلا کا پروگرام بنایا ہے یا نہیں۔ نیو یارک ٹائمز سے ایک حالیہ انٹرویو میں نیٹو سیکریٹری جنرل جینز اسٹالٹن برگ نے فوجیوں کی تعداد گھٹانے کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہا تھا، مگر ہاں اتنا ضرور کہا تھا کہ نیٹو افغانستان میں اپنے مشن کے حوالے سے پرعزم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کئی بار اپنی فورسز کی ایڈجسٹمنٹ کی ہے اور آئندہ بھی اپنی فورسز کی تشکیل اور طریقِ کار پر متوجہ رہیں گے۔
افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد گھٹانے کا معاملہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکا نے ترک فوج کی پیش قدمی دیکھتے ہوئے شام سے بھی اپنے فوجی واپس بلائے ہیں۔ شام اور افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلیاں کئی پہلوؤں سے باہم مربوط ہیں۔
دسمبر ۲۰۱۹ء میں صدر ٹرمپ نے پہلی بار اعلان کیا کہ شام سے امریکی فوجی واپس بلالیے جائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ افغانستان سے ۷ ہزار امریکی فوجی واپس بلائے جائیں۔ صدر ٹرمپ کا حکم نامہ محکمہ دفاع (پنٹاگون) اور مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی کمان کو گیا۔ کوشش کی گئی کہ صدر ٹرمپ رائے تبدیل کرلیں۔
شام کی بدلتی ہوئی صورتِ حال پر طالبان نے بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ترکی کو کرد جنگجوؤں کے خلاف جانے کی اجازت دی جبکہ یہ جنگجو ایک طویل مدت سے امریکی فوج سے جڑ کر لڑتے رہے تھے۔
طالبان کے ایک سینئر مذاکرات کار خیراللہ خیر خواہ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’امریکا دنیا بھر میں اپنے مفادات کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور جہاں ایسا ممکن نہ ہو وہاں سے وہ نکل جاتا ہے۔ شام میں کرد جنگجوؤں کو چھوڑ دینا اِس کی ایک واضح مثال ہے‘‘۔ خیراللہ خیر خواہ نے کہا کہ اب یہ واضح ہے کہ کابل انتظامیہ کا بھی یہی مقدر ہوگا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“U.S. is quietly reducing its troop force in Afghanistan”. (“New York Times”. Oct. 21, 2019)
Leave a Reply