شمارہ 16 اکتوبر 2011
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر:4، شمارہ نمبر:20-
پاک آرمی کی گیارہویں کور (پشاور) کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین ملک سے ’’نیوز ویک‘‘ کے نذر الاسلام نے راولپنڈی میں انٹرویو کیا جو ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ٭ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی سربراہی میں لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کا کیا کردار ہے؟ آصف یاسین ملک: پاکستانی فوج اور نیم فوجی ادارے دہشت گردی کے خلاف طویل مدت سے لڑ رہے ہیں۔ یہ لڑائی ۱۱ ستمبر ۲۰۱۱ء سے بھی پہلے سے جاری ہے۔ نائن الیون کے بعد تو ہمیں بس حالات کے مطابق خود کو بدلنا تھا۔ پہلے ہم جنگ کے روایتی طریقوں کو اپنائے ہوئے تھے۔ اب ہم کہیں بھی قانون نافذ کرنے سے متعلق کارروائی کی اہلیت رکھتے ہیں۔ [مزید پڑھیے]
بنیادی سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں براک اوباما کے لیے کوئی بھی بات کب درست نکلے گی؟ جب اوباما نے امریکی صدر کا منصب سنبھالا تھا تب ان کے ذہن میں یہ تھا کہ فلسطین کے حوالے سے دو ریاستوں کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر اچھا خاصا سیاسی سرمایہ ٹھکانے لگانے کے بعد بھی ان کے ہاتھ کچھ نہیں آسکا ہے۔ گزشتہ جنوری میں جب عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی تو امریکی صدر نے چاہا کہ امریکا کو درست جانب رکھیں مگر ہوا یہ کہ ان کا ملک (ایک خاص حد تک) لیبیا میں الجھ گیا اور دوسری طرف وہ ایک اور ملک (شام) کو بے بسی اور خاصی مایوسی سے دیکھتا رہا [مزید پڑھیے]
افغانستان میں چھیڑی جانے والی جنگ کو دس سال مکمل ہوگئے۔ اس موقع پر امریکی ایوان صدر نے کسی تقریب کا اہتمام نہیں کیا۔ شاید ایسا کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہ تھی۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ امریکا کے لیے یہ جنگ کوئی ایسی بات نہیں جسے یاد رکھا جائے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۱۱ء کو نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر حملوں کے دس سال مکمل ہونے پر صدر براک اوباما نے خاصی جامع تقریر کی تھی اور انہوں نے واضح کردیا تھا کہ وہ اب جنگ سے زیادہ امریکی معیشت کی بحالی پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا بیروزگاری اور مہنگائی کے چنگل میں ہے۔ عوام میں اشتعال بڑھتا جارہا ہے۔ صدر اوباما [مزید پڑھیے]
پاک امریکا تعلقات ایک بار پھر کشیدگی سے دوچار ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار امریکیوں کے نزدیک متنازع ہے۔ انہوں نے پاکستان پر حقانی گروپ کی بھرپور حمایت اور مدد کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ دونوں ممالک ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ پاکستان میں بدامنی اور بدحالی بنیادی مسائل ہیں۔ دوسری طرف امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور کردار ادا نہیں کر رہا۔ پاکستان پر شمالی وزیرستان میں حقانی گروپ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ واشنگٹن کی اٹلانٹک کونسل کے ساؤتھ ایشیا سینٹر کے ڈائریکٹر شجاع نواز نے اپنے مضمون میں پاک امریکا تعلقات کا جائزہ لیا ہے۔ جو قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ امریکا [مزید پڑھیے]
امریکا سے بگڑتے ہوئے تعلقات نے پاکستان کو مجبور کردیا ہے کہ چین سے تعلقات مزید مستحکم کیے جائیں اور امریکا سمیت پوری مغربی دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ اگر اُسے الگ تھلگ کردیا گیا یا امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا تو چین کا آپشن موجود ہے۔ امریکی پالیسی ساز بھی صورت حال کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اِس لیے کسی بھی طرح کی غیر معمولی سفارتی اور عسکری مہم جوئی کے موڈ میں نہیں۔ اُنہیں اندازہ ہے کہ پاکستان نے اِس اہم مرحلے پر امریکا اور افغانستان کا ساتھ چھوڑا تو افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج کا بحفاظت نکلنا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ چین کیا چاہتا ہے؟ کیا وہ اس پوزیشن میں [مزید پڑھیے]
معاشرے کے بارے میں ایک مقبول خیال یہ ہے کہ معاشرہ محض افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ افراد سے جدا، معاشرہ اپنا کوئی مستقل تشخص نہیں رکھتا چنانچہ اگر افراد کی اصلاح پر توجہ مرکوز کی جائے تو معاشرے کی اصلاح خود بخود ہو جائے گی۔ اس تخیل کے مقبول ہونے کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ اس میں محض جزوی صداقت ہے۔ اس حد تک تو بات صحیح ہے کہ معاشرے کے سدھرنے یا بگڑنے کا انحصار بڑی حد تک افراد پر ہے لیکن حقیقت کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ معاشرہ اپنا ایک مستقل و ممتاز وجود بھی رکھتا ہے، جو ایک اعتبار سے افراد کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا [مزید پڑھیے]
پاکستان نے ۱۹۷۱ء میں ایک قوم کی حیثیت سے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے سانحے کا سامنا کیا۔ ہم نے ایسی وجوہ کے باعث اپنے ملک کا ایک بازو گنوا دیا جنہیں جانتے تو سب ہیں مگر کچھ ہی لوگ سمجھ پائے ہیں۔ ۱۹۷۱ء میں بنگالی علیحدگی پسند تحریک کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ایک آزاد ریاست بنگلہ دیش کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ بنگالی علیحدگی پسند تحریک کوئی راتوں رات نہیں ابھری تھی۔ اس کی جڑیں پاکستان کی تاریخ میں تھیں۔ اس المیے کے حوالے سے اہل دانش آج بھی سوچتے رہتے ہیں کہ بنگلہ علیحدگی پسند تحریک سیاسی قیادت کی ناکامی کا نتیجہ تھی، عسکری قیادت کی سیاسی خواہشات کا عکس تھی یا پھر کوئی بین الاقوامی سازش تھی؟ [مزید پڑھیے]
آج کے ’’ہندی زدہ‘‘ یا ’’انڈین ٹی وی زدہ‘‘ اردو گو فرد کے لیے یہ بات یقینا حیرت کا باعث ہو گی کہ ’’پریم‘‘ سے بھی کوئی بحث ایسے جنم لے سکتی ہے کہ ایک صدی کے بعد تک ختم نہ ہو۔ جی ہاں، یہ بحث کہ اردو رسم الخط ناموزوں ہے، تبدیل کر دیا جائے، للّو لال جی کی تصنیف ’’پریم ساگر‘‘ کی اردو نستعلیق کے بجائے، دیونا گری رسم الخط میں شائع ہونے سے شروع ہوئی۔ یہ کتاب کوئی دو سو سال قبل فورٹ ولیم کالج کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی تھی۔ اردو کی ترویج میں اس ادارے کا نمایاں کردار ناقابلِ فراموش تھا، مگر یہ حقیقت بھی ناقابلِ تردید ہے کہ اس طرح کے اِقدامات سے انگریز سرکار نے ’’ہندی۔اردو‘‘ اور ’’ہندو۔مسلم‘‘ [مزید پڑھیے]
قسط نمبر۳ منصوبہ بندی کرتے وقت مندرجہ ذیل امور کوزیادہ اہمیت دینی چاہیے: (الف) صلاحیتوں کے مطابق درجہ بندی: ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کے تخصص (اسپیشلائزیشن) کے مطابق اعلیٰ معیاروں پر راہنمائی کی جائے تاکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی مثلاً… علمی، شرعی، سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، ثقافتی، تربیتی، ابلاغی، انتظامی اور پلاننگ وغیرہ کا یہ شگاف بند اور ہر حاجت پوری ہو جائے۔ (ب) حالات کے مطابق پیش قدمی: آج کا معاشرہ جدید اور تمدنی معاشرہ کہلاتا ہے۔ یہ کمپیوٹر، ایٹمی اسلحے، فضائی کیمیائی جنگ اور بیالوجیکل انجینئرنگ کا دور ہے۔ یہ ایسی دنیا ہے جس میں ہر دن کوئی نہ کوئی نئی چیز ایسی ایجاد ہوتی ہے جو علم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک جن کے برابر سمجھی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں جب ہم [مزید پڑھیے]
جہانگیر ترین کا شمار ملک کے ان صنعت کاروں میں ہوتا ہے جو شکر کی پیداوار کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے ۲۰۰۲ء میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں سیاست میں قدم رکھا۔ پہلے وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے مشیر برائے زراعت و سماجی امور بنے۔ اس کے بعد انہیں صنعتوں کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا۔ ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ آج کل جہانگیر ترین کرپشن سے پاک سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر ۲۰۱۳ء کے عام انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ نیوز ویک کے لیے شہر بانو تاثیر نے لاہور میں ۵۹ سالہ جہانگیر ترین [مزید پڑھیے]